فضول گفتگو کی چند مثالیں
(۱) ”یہ گاڑی کتنے میں لی ؟“
یادرہے کہ یہ سوال اس وقت فضول کہلائے گا جب اس سوال کے پیچھے کوئی واضح مقصد نہ ہو چنانچہ اگر کوئی اس لئے پوچھے کہ وہ بھی گاڑی خریدنے کی خواہش رکھتا ہے اور اندازہ کرنا چاہے کہ آیا میری قوتِ خرید اتنی ہے یا نہیں کہ میں یہ گاڑی خرید سکوں تو اب یہ سوال فضول نہیں کہلائے گا ۔واللہ تعالیٰ اعلم
(۲) ”آج بہت گرمی ہے ۔“
لیکن اگر کوئی اس نیت سے یہ الفاظ کنایۃ بولے کہ میزبان ٹھنڈا پانی پلادے یا پنکھا چلادے اور اسے سوال بھی نہ کرنا پڑے تو یہ سوال فضول نہیں کہلائے گا۔جیسا کہ منقول ہے کہ مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن کو جب پیاس لگتی تو فرماتے ”مجھے پیاس لگی ہے ۔”خدمت گار معاملہ سمجھ کر آپ کی بارگاہ میں پانی حاضر کردیتے اور آپ کو سوال بھی نہ کرنا پڑتا ۔
(۳) ”نہ جانے یہ ٹریفک کیوں جام ہوجاتا ہے ۔“
(۴) ”نہ جانے یہ سڑکیں کب مکمل ہوں گی؟“
(۵) ”نہ جانے یہ ٹرین کب منزل پر پہنچے گی ؟“
میرے پیارے اور محترم بھائیو!
کلام کی مذکورہ بالا تقسیم اور اس کی تفصیل سے یہ نتیجہ سامنے آیا کہ قلتِ کلام میں ہی عافیت ہے کیونکہ کلامِ کثیر کی صورت میں زبان کے نافرمانی میں مبتلاء ہونے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں جیسا کہ حضرتِ سیدنا ابوہریرہرضي الله عنه سے روایت ہے کہ سرورِ کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جس کا کلام زیادہ ہوتاہے اس کی خطائیں بھی زیادہ ہوتی ہیں ۔“
(الترغیب والترہیب ، کتاب الادب ، رقم الحدیث ۵۱،ج۳،ص۳۴۵)