جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اژدہا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیا تو جادوگر سجدے میں گر کر ایمان لائے۔ مگر فرعون اور اس کے متبعین نے اب بھی ایمان قبول نہیں کیا۔ بلکہ فرعون کا کفر اور اس کی سرکشی اَور زیادہ بڑھ گئی اور اس نے بنی اسرائیل کے مومنین اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دل آزاری اور ایذا رسانی میں بھرپور کوشش شروع کردی اور طرح طرح سے ستانا شروع کردیا۔ فرعون کے مظالم سے تنگ دل ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوند قدوس کے دربار میں اس طرح دعا مانگی کہ
”اے میرے رب! فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے لہٰذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرمالے جو ان کے لئے سزا وار ہو۔ اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔” (روح البیان،ج۳،ص۲۲۰،پ۹،الاعراف:۱۳۳)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذابوں کو مسلط فرما دیا وہ پانچوں عذاب یہ ہیں:۔
(۱)طوفان:۔ ناگہاں ایک ابر آیا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا پھر انتہائی زور دار بارش ہونے لگی۔ یہاں تک کہ طوفان آگیا اور فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا۔ اور وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں تک آگیا ان میں سے جو بیٹھا وہ ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔ نہ ہل سکتے تھے نہ کوئی کام کرسکتے تھے۔ ان کی کھیتیاں اور باغات طوفان کے دھاروں سے برباد ہو گئے۔ سنیچر سے سنیچر تک مسلسل سات روز تک وہ لوگ اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجودیکہ بنی اسرائیل کے مکانات فرعونیوں کے گھروں سے ملے ہوئے تھے مگر بنی اسرائیل کے گھروں میں سیلاب کا پانی نہیں آیا اور وہ نہایت ہی امن و چین کے ساتھ اپنے گھروں میں رہتے تھے جب فرعونیوں کو اس مصیبت کے برداشت کرنے کی تاب و طاقت نہ رہی اور وہ بالکل ہی عاجز ہو گئے تو ان لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ ہمارے لئے دعافرمایئے کہ یہ مصیبت ٹل جائے تو ہم ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے پاس بھیج دیں گے۔ چنانچہ آپ نے دعا مانگی تو طوفان کی بلا ٹل گئی اور زمین میں ایسی سرسبزی اور شادابی نمودار ہوئی کہ اس سے پہلے کبھی بھی دیکھنے میں نہ آئی تھی۔ کھیتیاں بہت شاندار ہوئیں اور غلوں اور پھلوں کی پیداوار بے شمار ہوئی یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے کہ یہ طوفان کا پانی تو ہمارے لئے بہت بڑی نعمت کا سامان تھا۔ پھر وہ اپنے عہد سے پھر گئے اور ایمان نہیں لائے اور پھر سرکشی اور ظلم و عصیان کی گرم بازاری شروع کردی۔
(۲)ٹڈیاں:۔ایک ماہ تک تو فرعونی نہایت عافیت سے رہے۔ لیکن جب ان کا کفر و تکبر اور ظلم و ستم پھر بڑھنے لگا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے قہر و عذاب کو ٹڈیوں کی شکل میں بھیج دیا کہ چاروں طرف سے ٹڈیوں کے جھنڈ کے جھنڈ آگئے جو ان کی کھیتیوں اور باغوں کو یہاں تک کہ ان کے مکانوں کی لکڑیاں تک کو کھا گئیں اور فرعونیوں کے گھروں میں یہ ٹڈیاں بھر گئیں جس سے ان کا سانس لینا مشکل ہو گیا مگر بنی اسرائیل کے مومنین کے کھیت اور باغ اور مکانات ان ٹڈیوں کی یلغار سے بالکل محفوظ رہے۔ یہ دیکھ کر فرعونیوں کو بڑی عبرت ہو گئی اور آخر اس عذاب سے تنگ آکر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آگے عہد کیا کہ آپ اس عذاب کے دفع ہونے کے لئے دعا فرما دیں تو ہم لوگ ضرور ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل پر کوئی ظلم و ستم نہ کریں گے۔ چنانچہ آپ کی دعا سے ساتویں دن یہ عذاب بھی ٹل گیا اور یہ لوگ پھر ایک ماہ تک نہایت ہی آرام و راحت میں رہے۔ لیکن پھر عہد شکنی کی اور ایمان نہیں لائے۔ ان لوگوں کے کفر اور عصیان میں پھر اضافہ ہونے لگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور مومنین کو ایذائیں دینے لگے اور کہنے لگے کہ ہماری جو کھیتیاں اور پھل بچ گئے ہیں وہ ہمارے لئے کافی ہیں۔ لہٰذا ہم اپنا دین چھوڑ کر ایمان نہیں لائیں گے۔
(۳)گھن:۔غرض ایک ماہ کے بعد پھر ان لوگوں پر ”قمل ” کا عذاب مسلط ہوگیا۔ بعض مفسرین کا بیان ہے کہ یہ گھن تھا جو ان فرعونیوں کے اناجوں اور پھلوں میں لگ کر تمام غلوں اور میوؤں کو کھا گیا اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ایک چھوٹا سا کیڑا تھا، جو کھیتوں کی تیار فصلوں کو چٹ کر گیا اور ان کے کپڑوں میں گھس کر ان کے چمڑوں کو کاٹ کاٹ کر انہیں مرغ بسمل کی طرح تڑپانے لگا۔ یہاں تک کہ ان کے سر کے بالوں، داڑھی، مونچھوں، بھنوؤں، پلکوں کو چاٹ چاٹ کر اور چہروں کو کاٹ کاٹ کر انہیں چیچک رو بنا دیا۔ یہ کیڑے ان کے کھانوں، پانیوں اور برتنوں میں گھس جاتے تھے۔ جس سے یہ لوگ نہ کچھ کھا سکتے تھے نہ کچھ پی سکتے تھے۔ نہ لمحہ بھر کے لئے سو سکتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک ہفتہ میں اس قہر آسمانی و بلاء ناگہانی سے بلبلا کر یہ لوگ چیخ پڑے اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حضور حاضر ہو کر دعا کی درخواست کرنے لگے اور ایمان لانے کا عہد دینے لگے چنانچہ آپ نے ان لوگوں کی بے قراری اور گریہ و زاری پر رحم کھا کر دعا کردی۔ اور یہ عذاب بھی رفع دفع ہو گیا۔ لیکن فرعونیوں نے پھر اپنے عہد کو توڑ ڈالا۔ اور پہلے سے بھی زیادہ ظلم و عدوان پر کمربستہ ہو گئے۔ پھر ایک ماہ کے بعدان لوگوں پر مینڈک کا عذاب نازل ہو گیا۔
(۴)مینڈک:۔ان فرعونیوں کی بستیوں اور ان کے گھروں میں اچانک بے شمار مینڈک پیدا ہو گئے اور ان ظالموں کا یہ حال ہو گیا کہ جو آدمی جہاں بھی بیٹھتا اس کی مجلس میں ہزاروں مینڈک بھر جاتے تھے۔ کوئی آدمی بات کرنے یا کھانے کے لئے منہ کھولتا تو اس کے منہ میں مینڈک کود کر گھس جاتے۔ ہانڈیوں میں مینڈک، ان کے جسموں پر سینکڑوں مینڈک سوار رہتے۔ اٹھنے، بیٹھنے، لیٹنے کسی حالت میں بھی مینڈکوں سے نجات نہیں ملتی تھی۔ اس عذاب سے فرعونی رو پڑے اور پھر روتے گڑگڑاتے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بارگاہ میں دعا کی بھیک مانگنے کے لئے آئے اور بڑی بڑی قسمیں کھا کر عہد و پیمان کرنے لگے کہ ہم ضرور ایمان لائیں گے اور مومنین کو کبھی ایذاء نہیں دیں گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ساتویں دن یہ عذاب بھی اٹھا لیا گیا مگر یہ مردود قوم راحت ملتے ہی پھر اپنا عہد توڑ کر اپنی پہلی خبیث حرکتوں میں مشغول ہوگئی۔ مومنین کو ستانے لگے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توہین و بے ادبی کرنے لگے تو پھر عذابِ الٰہی نے ان ظالموں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور ان لوگوں پر خون کا عذاب قہرالٰہی بن کر اتر پڑا۔
(۵)خون:۔ ایک دم بالکل اچانک ان لوگوں کے تمام کنوؤں، نہروں کا پانی خون ہو گیا تو ان لوگوں نے فرعون سے فریاد کی، تو اس سرکش نے کہا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جادوگری اور نظربندی ہے۔ یہ سن کر فرعونیوں نے کہا کہ یہ کیسی اور کہاں کی نظر بندی ہے؟ کہ ہمارے کھانے پینے کے برتن خون سے بھرے پڑے ہیں اور مومنین پر اس کا ذرا بھی اثر نہیں تو فرعون نے حکم دیا کہ فرعونی لوگ مومنین کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی نکالیں۔ مگر خدا کی شان کہ مومنین اسی برتن سے پانی نکالتے تو نہایت ہی صاف شفاف اور شیریں پانی نکلتا اور فرعونی جب اسی برتن سے پانی نکالتے تو تازہ خالص خون نکلتا۔ یہاں تک کہ فرعونی لوگ پیاس سے بے قرار ہو کر مومنین کے پاس آئے اور کہا کہ ہم دونوں ایک ہی برتن سے ایک ہی ساتھ منہ لگا کرپانی پئیں گے مگر قدرت خداوندی کا عجیب جلوہ نظر آتا۔ ایک ہی برتن سے ایک ساتھ منہ لگا کر دونوں پانی پیتے تھے مگر مومنین کے منہ میں جو جاتا وہ پانی ہوتا تھا اور فرعون والوں کے منہ میں جو جاتا وہ خون ہوتا تھا۔ مجبور ہو کر فرعون اور فرعونی لوگ گھاس اور درختوں کی جڑیں اور چھالیں چبا چبا کر چوستے تھے مگر اس کی رطوبت بھی ان کے منہ میں جا کر خون بن جاتی تھی۔
الغرض فرعونیوں نے پھر گڑگڑا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی۔ تو آپ نے پیغمبرانہ رحم و کرم فرما کر پھر ان لوگوں کے لئے دعائے خیر فرما دی تو ساتویں دن اس خونی عذاب کا سایہ بھی ان کے سروں سے اٹھ گیا۔ الغرض ان سرکشوں پر مسلسل پانچ عذاب آتے رہے اور ہر عذاب ساتویں دن ٹلتا رہا اور ہر دو عذابوں کے درمیان ایک ماہ کا فاصلہ ہوتا رہا مگر فرعون اور فرعونیوں کے دلوں پر شقاوت و بدبختی کی ایسی مہر لگ چکی تھی کہ پھر بھی وہ ایمان نہیں لائے اور اپنے کفر پر اڑے رہے اور ہر مرتبہ اپنا عہد توڑتے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کا آخری عذاب آگیا کہ فرعون اور اس کے متبعین سب دریائے نیل میں غرق ہو کر ہلاک ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے خدا کی دنیا ان عہد شکنوں اور مردودوں سے پاک و صاف ہو گئی اور یہ لوگ دنیا سے اس طرح نیست و نابود کردیئے گئے کہ روئے زمین پر ان کی قبروں کا نشان بھی باقی نہیں رہ گیا۔
(تفسیر الصاوی،ج۲،ص۸۰۳،پ۹،الاعراف: ۱۳۳)
قرآن مجید نے ان مذکورہ بالا پانچوں عذابوں کی تصویر کشی ان الفاظ میں فرمائی ہے:۔
(پ9،الاعراف:133تا136)
ترجمہ کنزالایمان:۔تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن (یاکلنی یا جوئیں)اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی اور جب ان پر عذاب پڑتا کہتے اے موسیٰ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے بیشک اگر تم ہم پرسے عذاب اٹھا دو گے تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے پھر جب ہم ان سے عذاب اٹھا لیتے ایک مدت کے لئے جس تک انہیں پہنچنا ہے جبھی وہ پھر جاتے تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا اس لئے کہ ہماری آیتیں جھٹلاتے اور ان سے بے خبر تھے
درس ہدایت:۔(۱)ان واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ عہد شکنی اور اللہ کے نبیوں کی تکذیب و توہین کتنا بڑا اور ہولناک جرم عظیم ہے کہ اس کی وجہ سے فرعونیوں پر بار بار عذابِ الٰہی قسم قسم کی صورتوں میں اترا۔ یہاں تک کہ آخر میں وہ دریا میں غرق کر کے دنیا سے فنا کردیئے گئے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو عہد شکنی اور سرکشی اور گناہوں سے بچتے رہنا لازم ہے کہ کہیں بداعمالیوں کی نحوستوں سے ہم پر بھی قہرِ الٰہی عذاب کی صورت میں نہ اتر پڑے۔
(۲)حضرت موسیٰ علیہ السلام کا صبر و تحمل اور ان کی رقیق القلبی بلاشبہ انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ بار بار عہد شکنی کرنے والے اپنے دشمنوں کی آہ و فغاں پر رحم کھا کر ان کے عذاب کو دفع کرنے کی دعا فر ماتے رہے اس سے معلوم ہوا کہ قوم کے ہادی اور ان کے پیشوا کے لئے صبر و تحمل اور عفو و درگزر کی خصلت انتہائی ضروری ہے اور علماء کرام کو جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے نائبین ہیں ان کے لئے بے حد لازم و ضروری ہے کہ وہ اپنے مخالفین اور بدخواہوں سے انتقام کا جذبہ نہ رکھیں بلکہ صبر و تحمل کر کے اپنے مجرموں کو بار بار معاف کرتے رہیں۔ کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مقدس سنت بھی ہے اور ہمارے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ ایک بڑا ہی خاص اور خصوصی طرہ امتیاز ہے کہ آپ نے کبھی بھی اپنی ذات کے لئے اپنے دشمنوں سے کوئی بھی انتقام نہیں لیا بلکہ ہمیشہ ان کو معاف فرما دیا کرتے تھے۔ اور یہ آپ کی مقدس تعلیم کا بہت ہی تابناک اور درخشاں ارشاد ہے کہ
یعنی تم سے جو تعلق کاٹے تم اس سے تعلق جوڑو۔ اور جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو۔ اور جو تمہارے ساتھ بُرا برتاؤ کرے تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے اسی حدیث کی ترجمانی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔
بدی رابدی سہل باشد جزا اگر مردی اَحْسِنْ اِلٰی مَنْ اَسَا
یعنی برائی کا برا بدلہ دینا تو بہت آسان ہے لیکن اگر تم جوان مرد ہو تو برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی کرو۔