حضرت داؤد علیہ السلام کی ننانوے بیویاں تھیں۔ اس کے بعد آپ نے ایک دوسری عورت کو نکاح کا پیغام دیا جس کو ایک مسلمان نے پہلے سے پیغام دے رکھا تھا لیکن آپ کا پیغام پہنچنے کے بعد عورت کے اولیاء دوسرے کی طرف بھلا کب اور کیسے توجہ کرسکتے تھے، آپ سے نکاح ہوگیا۔ یہ بات نہ تو شرعاً ناجائز تھی، نہ اُس زمانے کے رسم و رواج کے خلاف تھی۔ لیکن حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی شان بہت ہی ارفع و اعلیٰ ہوتی ہے۔ یہ آپ کے منصب عالی کے مناسب نہ تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہوئی کہ آپ کو اس پر متنبہ اور آگاہ کردیا جائے۔
چنانچہ اس کا ذریعہ یہ بنایا کہ فرشتے مدعی اور مدعا علیہ بن کر آپ کے دربار میں ایک مقدمہ لے کر آئے اور بجائے دروازہ سے داخل ہونے کے دیوار پھاند کر مسجد میں آئے۔ آپ ان لوگوں کو دیوار پھاندتے دیکھ کر کچھ گھبرا گئے۔ تو فرشتوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں۔ ہم دو فریق ہیں کہ ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔ لہٰذا آپ ہمارا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیجئے اور ہمیں سیدھی راہ چلایئے۔ ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ میرا یہ بھائی اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے۔ اب یہ کہتا ہے کہ تو اپنی ایک دنبی بھی میرے حوالہ کردے اور اس بات کے لئے مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے۔ یہ سن کر حضرت داؤد علیہ السلام نے فوراً یہ فیصلہ فرما دیا کہ بے شک یہ زیادتی ہے کہ وہ تیری دنبی کو اپنی دنبیوں میں ملا لینے کو کہتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اکثر ساجھے والے ایک دوسرے پر زیادتی کرتے رہتے ہیں۔ بجز اُن لوگوں کے جو صاحب ِ ایمان اور نیک عمل ہوں اور ایسوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ مقدمہ کا فیصلہ سنا کر حضرت داؤد علیہ السلام کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اس مقدمہ کی پیشی درحقیقت یہ میرا امتحان تھا۔ چنانچہ فوراً ہی آپ سجدہ میں گر پڑے اور خدا سے معافی مانگنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف فرما دیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:۔
ترجمہ کنزالایمان:۔ تو ہم نے اسے یہ معاف فرمادیا اور بیشک اس کے لئے ہماری بارگاہ میں ضرور قرب اور اچھا ٹھکانا ہے۔ اے داؤد بے شک ہم نے تجھے زمین میں نائب کیا تو لوگوں میں سچا حکم کر اور خواہش کے پیچھے نہ جانا کہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکا دے گی۔
درسِ ہدایت:۔حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی شان بہت ہی عظیم الشان ہے اس لئے بہت ہی معمولی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی خداوند ِ قدوس کی طرف سے ان حضرات کو آگاہی دی جاتی ہے اور یہ نفوسِ قدسیہ بھی بارگاہِ خداوندی میں اس قدر مطیع اور متواضع ہوتے ہیں کہ فوراً ہی دربار خداوندی میں سجدہ ریز ہو کر عفو تقصیر کی استدعا کرنے لگتے ہیں۔مثل مشہور ہے کہ حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ یعنی نیک لوگوں کی نیکیاں مقربین کے لئے خطاؤں کا درجہ رکھتی ہیں۔ کیوں نہ ہو۔
جن کے رتبے ہیں سوا اُن کو سوا مشکل ہے