حضرت عباد بن عبد الصّمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ہم ایک روز حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے دولت خانہ پرحاضر ہوئے۔ آ پ رضی اللہ عنہ کا حکم پا کر کنیز نے دسترخوان بچھایا۔ فرمایا، رومال بھی لاؤ ۔ وہ ایک رومال لے آئی جسے دھونے کی ضرورت تھی۔ حکم دیا، اس کو تنّور میں ڈال دو! اس نے بھڑکتے تنّور میں ڈال دیا! تھوڑی دیر کے بعد جب اسے آگ سے نکالا گیا تو وہ ایسا سفید تھا جیسا کہ دودھ۔ ہم نے حیران ہوکر عرض کی، اس میں کیا راز ہے؟
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ وہ رومال ہے جس سے حضور سراپا نور ﷺ اپنا رخ پر نور صاف فرمایا کرتے تھے۔ جب دھونے کی ضرورت پڑتی ہے ہم اس کو اسی طرح آگ میں دھو لیتے ہیں! کیونکہ جو چیز انبیائے کرام علیہِم السلام کے مبارک چہروں پر گزرے آگ اسے نہیں جلاتی(1)
عزیز ساتھیو!عارِف کامل حضرت مولانا روم علیہ رحمۃ القیوم”مثنوی شریف” میں اس واقعہ مبارک کو لکھنے کے بعد فرماتے ہیں:
اے دلِ تَرسِنْدہ اَز نارو عذاب با چُناں دَست و لَبے کُن اِقْتَراب
چُوں جَما وے راچُناں تشریف داد جانِ عاشِق را چَہا خَواہَد کَشاد
یعنی اے وہ دل جس کو عذاب نار کا ڈر ہے، ان پیارے پیارے ہونٹوں اور مقدّس ہاتھوں سے نزدیکی کیوں نہیں حاصل کر لیتا جنہوں نے بے جان چیز رومال تک کو ایسی فضلیت و بزرگی عطا فرمائی کہ وہ آگ میں نہ جلے، تو ان کے جو عاشق زار ہیں ان پر عذاب نار کیوں نہ حرام ہو۔
حوالہ جات
1↑ | الخصائص الکبریٰ ج۲ ص ۱۳۴ |
---|