حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کے زمانے میں ایک مرتبہ قحط پڑا، لوگوں نے آپ علیہ السلام کی بارگاہ میں درخواست کی: یا کلیم اللہ!دعا فرمائیے کہ بارش ہو۔آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
سب لوگ ساتھ چل پڑے تو آپ نے اعلان فرمایا:
یہ سن کر سارے لوگ واپس چلے گئے، صرف (برخ العابد نام کا)ایک آنکھ والا آدمی ساتھ چلتا رہا۔حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس سے فرمایا:
عرض کی:سنی ہے۔ پوچھا: کیا تم بالکل بے گناہ ہو؟ عرض کی: یا کلیم اللہ!مجھے اپنا اور کوئی جرم تو یاد نہیں، البتہ! ایک بات کا تذکرہ کرتا ہوں اگر وہ گناہ ہے تو میں بھی واپس چلا جاتا ہوں۔فرماىا: وہ کیا؟ عرض کی: ایک دن میں نے گزرگاہ پر کسی کی قیام گاہ میں ایک آنکھ سے جھانکا تو کوئی کھڑا تھا، کسی کے گھر میں اس طرح جھانکنے کا مجھے بہت قلق(یعنی صدمہ) ہوا، میں خوف خدا سے لرز اٹھا،مجھ پر ندامت غالب آئی اور جس آنکھ سے جھانکا تھا اس کو نکال کر پھینک دیا۔ ارشاد فرمائیے!
حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس کو ساتھ لے لیا پھر پہاڑ پر پہنچ کر آپ نے اس شخص سے ارشاد فرمایا: اللہ سے بارش کی دعا کرو۔ اس نے ہوں دعا کی: یاقدوس عزوجل! یا قدوس عز وجل! تیرا خزانہ کبھی ختم نہیں ہوتا اوربخل تیرى صفت نہیں، اپنے فضل و کرم سے ہم پر پانی برسادے۔ فورا ًبارش ہوگئی اور حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور وہ شخص بھیگتے ہوئے پہاڑ سے واپس تشریف لائے۔
(روض الریاحین، الحکایة الستون بعد الثلاث مائة، ص۲۹۵ملخصاً)
تنبیہ
بدقسمتى سے جس طرح آدمى بولنے مىں بے باک ہے اسى طرح دیکھنے میں بھى بے باک ہے، اسے احساس تک نہىں کہ دیکھنا بھی ایک عمل ہے جو اس کے لیے ثواب یا عذاب کا باعث بن سکتا ہ
۔ مثلاً اگر اپنى ماں کو محبت بھرى نظر سے دیکھتا ہے تو ایک مقبول حج کا ثواب ملتا ہے اوراگر غیر محرم کو شہوت کے ساتھ دیکھتا ہے تو عذابِ نار کا حق دار بنتا ہے کیونکہ غیر محرم عورت کو دیکھنا انسان کا نہیں شیطان کا کام ہے۔
سبق
ایک طرف اللہ عزوجل کے اس پرہیزگار اور متقی بندے کا یہ حال ہےکہ کبھی كوئى اىسا فعل ہی نہیں کیا جس كے متعلق ىہ شك ہو كہ یہ گناہ ہے اور اتفاقاً گزرتے ہوئے کسی پر نِگاہ پڑگئی حالانکہ یہ گناہ نہیں تھا پھر بھی خوفِ خدا کے باعث اىسى ندامت طاری ہوئى كہ انہوں نے اپنی وہ آنكھ ہی نكال كر پھىنك دی اور ایک طرف ہمارا یہ حال ہے کہ ہم دن میں ہزاروں گناہ کرتے ہیں مگر ندامت تو کجا،ہمیں اِس بات کا احساس تک نہیں ہوتا۔
ندامت سے گناہوں کا اِزالہ کچھ تو ہوجاتا
ہمیں رونا بھی تو آتا نہیں ہائے ندامت سے
عبرت
عِبْرَت پکڑئیے اور بدنگاہی سے فوراً باز آجائیے کہ دنیا میں آج مسلمانوں کے زوال کی ایک وجہ بدنگاہی و بے حیائی بھی ہے۔ کیونکہ یہ عام مشاہدہ ہے کہ بعض لوگ بدنِگاہی کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ مَعَاذَ اللہ جب تک غىر محرم عورتوں کو تکتے نہىں انہىں چین نہیں آتااور وہ اپنے اس مذموم مقصد کے حُصول کی خاطِر بازاروں، شاپنگ سینٹروں، تفریح گاہوں، الغرض جہاں جہاں بے پردہ عورتوں کا مجمع ہوتا ہےوہاں مارے مارے پھرتے،خوب بدنِگاہیاں کرتے اور اپنی دنیا وآخرت کی بربادی کا سامان کرتے ہیں۔
چنانچہ امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالوَالِی مِنْهَاجُ الْعَابِدِیْن میں فرماتے ہیں:حضرت سیِّدُنا عیسٰی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے منقول ہے کہ خود کو بدنِگاہی سے بچاؤ کیونکہ بدنِگاہی دل میں شہوت کا بِیج بَوتی ہے،پھر شہوت بدنِگاہی کرنے والے کو فتنہ میں مبتلا کردیتی ہے۔(منهاج العابدین،تقویٰ الاعضاء الخمسة، الفصل الاول :العين، ص۶۲)
کامِل مومن کی پہچان
بدنِگاہی کرنے والے کو اگر پتا چل جائے کہ کوئى غىر مرد اس کی ماں، بہن، بیوی یا بیٹی کو بری نظر سے دىکھ رہا ہے تو اس کی غىرت کو جوش آجائے اور وہ آگ بگولا ہو جائے،لہٰذا اسے غور کرنا چاہئے کہ جسے وہ دىکھ رہا ہے وہ بھی تو کسى کى ماں، بہن، بیوی یا بیٹی ہے۔یہ کیسی منطق ہے کہ جو بات اپنے لئے ناپسند ہے اسے دوسروں کے حق میں برا نہیں سمجھاجاتا؟حالانکہ مسلمان کی شان اور کامِل مومن کی پہچان تو یہ ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے مسلمان بھائی کےلئے بھی پسند کرے۔
جیسا کہ حضرت سَیِّدُنا اَنَس رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:
تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔(بخاری ، کتاب الایمان ،باب من الایمان ان یحب لاخیه … الخ،۱۶/۱، حدیث:۱۳)
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں اپنی نظروں کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔