حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ ایک مسجد میں نماز پڑھنے تشریف لے گئے، نماز پوری ہونے کے بعد امام صاحب نے پوچھا، اے با یزید ! آپ کہاں سے کھاتے ہیں؟ فرمایا ، ذرا رکئے! پہلے آپ کے پیچھے پڑھی ہوئی نماز کو دہرا لوں، آپ کو جب مخلوق کو روزی دینے والے ہی کے بارے میں شک ہے، تو پھر آپ کے پیچھے نماز کیسے جائز ہے؟ (1)
عزیز ساتھیو! حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے ولیّ اللہ تھے۔ یقیناً اللہ رب العٰلمین عزوجل سب کی روزی کا کفیل ہے ، وہی کھلاتا پِلاتا ہے ۔ امام صاحب نے یہ سوال پوچھ کر کہ” آپ کہاں سے کھاتے ہیں ؟ حضرت کے نزدیک اپنے ضعیف الاعتقاد ہونے کا ثبوت دیا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے نماز دہرائی یہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا تقویٰ تھا۔ عرفاً اس طرح کے سوال و جواب لوگ آپس میں کرتے ہیں شرعاً اس میں کوئی گناہ نہیں۔
بھنا ہوا پرندہ
ابو الحسین علوی کا بیان ہے ، میں نے ایک بار گھر میں فرمائش کی کہ فلاں حلال پرندہ بھوننے کیلئے تندور میں لٹکا دو، میں وقت مناسب پر آ کر کھا لوں گا۔ پھر میں حضرت جعفر خلدی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں زیارت کیلئے حاضر ہوا، انہوں نے فرمایا ، رات یہیں قیام کر لیجئے۔ میر ا دل چونکہ پرندہ کھانے میں پھنسا ہوا تھا میں کوئی بہانہ کر کے گھر پہنچ گیا۔ گرما گرم بھنا ہوا پرندہ دسترخوان پر رکھ دیا گیا ۔ یکایک گھر میں کتا گھس آ یا اور جھپٹ کر بھنا ہوا پرندہ لے بھاگا۔
اس پرندہ کا بچا ہوا شوربہ خادمہ لا رہی تھی کہ اس کے کپڑے کے دامن کا جھٹکا لگنے سے وہ شوربہ بھی سارے کا سارا گر گیا۔ پھرصبح جب میں حضرت شیخ جعفر خلدی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوا تو مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے ، ” جو شخص مشائخ کے دلوں کا لحاظ نہیں رکھتا اس کے دل کو ایذاء پہنچانے کیلئے کتا مسلط کر دیا جاتا ہے۔” (2)
عزیز ساتھیو! معلوم ہوا، بزرگوں کی بات نبھانے اور وہ جو حکم دیں اس کو بجا لانے ہی میں عافیت ہے۔ اللہ والوں کے ساتھ چالاکی اور بہانے بازی کار آمد نہیں ہوتی۔ اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔