حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر چالیس دن کے لئے تشریف لے گئے تو ”سامری”منافق نے چاندی سونے کے زیورات پگھلا کر ایک بچھڑے کی مورت بنا کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے پاؤں تلے کی مٹی اس مورت کے منہ میں ڈال دی تو وہ زندہ ہو کر بولنے لگا۔
پھر سامری نے مجمع عام میں یہ تقریر شروع کردی کہ اے بنی اسرائیل! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خدا سے باتیں کرنے کے لئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے ہیں لیکن خدا تو خود ہم لوگوں کے پاس آگیا ہے اور بچھڑے کی طرف اشارہ کر کے بولا کہ یہی خدا ہے ”سامری” نے ایسی گمراہ کن تقریر کی کہ بنی اسرائیل کو بچھڑے کے خدا ہونے کا یقین آگیا اور وہ بچھڑے کو پوجنے لگے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور سے واپس تشریف لائے تو بنی اسرائیل کو بچھڑا پوجتے دیکھ کر بے حد ناراض ہوئے پھر غضب و جلال میں آکر اس بچھڑے کو توڑ پھوڑ کر برباد کردیا ۔
پھر اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوا کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی ہے وہ لوگ بچھڑا پوجنے والوں کو قتل کریں۔ چنانچہ ستر ہزار بچھڑے کی پوجا کرنے والے قتل ہو گئے ۔
اس کے بعد یہ حکم نازل ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ستر آدمیوں کو منتخب کر کے کوہِ طور پر لے جائیں اور یہ سب لوگ بچھڑا پوجنے والوں کی طرف سے معذرت طلب کرتے ہوئے یہ دعا مانگیں کہ بچھڑا پوجنے والوں کے گناہ معاف ہوجائیں، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چن چن کر اچھے اچھے ستر آدمیوں کو ساتھ لیا اور کوہِ طور پر تشریف لے گئے۔ جب لوگ کوہِ طور پر طلب معذرت و استغفار کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ:۔
”اے بنی اسرائیل!میں ہی ہوں، میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں میں نے ہی تم لوگوں کو فرعون کے ظلم سے نجات دے کر تم لوگوں کو بچایا ہے لہٰذا تم لوگ فقط میری ہی عبادت کرو اور میرے سوا کسی کو مت پوجو۔
اللہ تعالیٰ کا یہ کلام سن کر یہ ستر آدمی ایک زبان ہو کر کہنے لگے کہ اے موسیٰ!ہم ہرگزہرگز آپ کی بات نہیں مانیں گے جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔ یہ ستر آدمی اپنی ضد پر بالکل اَڑ گئے کہ ہم کو آپ خدا کا دیدار کرایئے ورنہ ہم ہرگز نہیں ما نیں گے کہ خداوند عالم نے یہ فرمایا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کو بہت سمجھایا، مگر یہ شریر و سرکش لوگ اپنے مطالبہ پر اڑے رہ گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے غضب و جلال کا اظہار اس طرح فرمایا کہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے ایک ایسی خوفناک چیخ ماری کہ خوف و ہراس سے لوگوں کے دل پھٹ گئے اور یہ ستر آدمی مر گئے۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوند عالم سے کچھ گفتگو کی اور ان لوگوں کے لئے زندہ ہوجانے کی دعا مانگی تو یہ لوگ زندہ ہو گئے۔
(تفسیر صاوی،ج۱،ص۶۴،۶۵،پ۱،البقرۃ : ۵۵، ۵۶ )
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ لائیں گے جب تک علانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں تو تمہیں کڑک نے آلیا اور تم دیکھ رہے تھے پھر مرے پیچھے ہم نے تمہیں زندہ کیا کہ کہیں تم احسان مانو۔(پ1،البقرۃ:55،56)
درسِ ہدایت:۔
(۱)اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے پیغمبر کی بات نہ مان کر اپنی ضد پر اڑے رہنا بڑی ہی خطرناک بات ہے پھر ان ستر آدمیوں کا مر کر زندہ ہوجانا یہ خداوند قدوس کی قدرت کاملہ کا اظہار و اعلان ہے، تاکہ لوگ ایمان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب مرے ہوئے انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا۔
(۲) اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کا قانون یہ تھا کہ گناہ ِ شرک کرنے والوں کو قتل کردیا جائے ،پھر قوم کے نیک لوگ ان کے لئے طلب معذرت اور دعاءِ مغفرت کریں، تب ان شرک کرنے والوں کی توبہ قبول ہوتی تھی۔
مگر ہمارے حضور سید الانبیاء خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت چونکہ آسان شریعت ہے اس لئے اس کے قانون میں توبہ قبول ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ گناہ کرنے والے نے اگرچہ کفر و شرک کا گناہ کرلیا ہو سچے دل سے اپنے گناہ پر اللہ تعالیٰ کے حضور شرمندہ ہو کر معافی طلب کرے اور اپنے دل میں یہ عہد و عزم کرے کہ پھر وہ یہ گناہ نہیں کریگا تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لے گا اور اس کے گناہ کو معاف فرما دے گا۔ توبہ قبول ہونے کے لئے گناہ کرنے والوں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
سبحان اللہ!یہ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کے طفیل ہے کہ وہ اپنی امت پر رؤف و رحیم اور بے حد مہربان ہیں تو ان کے طفیل اللہ تعالیٰ بھی اپنے حبیب کی امت پر بہت زیادہ رحیم و کریم بلکہ ارحم الراحمین ہے ۔