مرد کا جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا واجب ہے ۔ (1) بغیر کسی عذر کے اگر ایک بار بھی وہ گھر میں نماز ادا کرتا ہے تو نماز کی فرضیت تو ادا ہو جائے گی، لیکن اسےجماعت چھوڑنے کا گناہ ملے گا۔ نماز دوہرانے کی حاجت نہیں مگر بلا عذر جماعت ترک کرنے کا گناہ بھی ملے گا اور ستائیس نمازوں جتنا ثواب حاصل کرنے سے بھی محرومی رہے گی(2)
پھر اگر کوئی سخت عذر ہے تو گھر میں نماز ادا کر سکتا ہے۔ لیکن وہ تب ہی ہے کہ واقعی عذر ہو۔ ایسا نہیں کہ نماز کی فرضیت گھر میں ادا ہو جاتی ہے تو بغیر کسی عذر کے پڑھتے رہیں۔ (معاذ اللہ) اور گھروں میں نماز ادا کرنے والوں کے بارے میں تو حضورﷺ نے سخت الفاظ ارشاد فرمائے ہیں۔ گھروں کو جلانے تک جتنی ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ (3)
جماعت چھوڑنے کے اعذار
(۱) مریض جسے مسجد تک جانے میں مُشقّت ہو۔
(۲) اپاہج۔
(۳) جس کا پاؤں کٹ گیا ہو۔
(۴) جس پر فالج گرا ہو۔
(۵) اتنا بوڑھا کہ مسجد تک جانے سے عاجز ہے۔
(۶) اندھا اگرچہ اندھے کے ليے کوئی ایسا ہو جو ہاتھ پکڑ کر مسجد تک پہنچا دے۔
(۷) سخت بارش اور
(۸) شدید کیچڑ کا حائل ہونا۔
(۹) سخت سردی۔
(۱۰) سخت تاریکی۔
(۱۱) آندھی۔
(۱۲) مال یا کھانے کے تلف (ضائع) ہونے کا اندیشہ۔
(۱۳) قرض خواہ کا خوف ہے اور یہ تنگ دست ہے۔
(۱۴) ظالم کا خوف۔
(۱۵) پاخانہ۔
(۱۶) پیشاب۔
(۱۷) ریاح کی حاجت شدید ہے۔
(۱۸) کھانا حاضر ہے اور نفس کو اس کی خواہش ہو۔
(۱۹) قافلہ چلے جانے کا اندیشہ ہے۔
(۲۰) مریض کی تیمارداری کہ جماعت کے ليے جانے سے اس کو تکلیف ہوگی اور گھبرائے گا، یہ سب ترک جماعت کے ليے عذر ہیں۔ (4) (درمختار)
یہ تو فرض نماز کا حکم تھا۔ جبکہ نفل نماز کے لیے خود شریعت نے حکم دیا ہے کہ گھروں میں ادا کرو اور گھروں کو قبرستان مت بناؤ۔(5)