اسلام میں نسبندی حرام ہے۔ نسبندی کا مطلب یہ ہے کہ کسی عمل یعنی آپریشن وغیرہ کے ذریعے مرد یا عورت میں قوت تولید یعنی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہمیشہ کیلئے ختم کر دینا۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضوراکرمﷺ سے بر بناۓ اندیشہ زناخصی ہونے کی اجازت چاہی تو حضور ﷺ نے اس سوال پر ان سے روگردانی فرمائی اور ناراضگی کا اظہار کیا۔
لیکن حمل روکنے کے خیال سے عارضی ذرائع اور وسائل اختیار کرنا مثلاً دوائیں، لوپ، نرودھ وغیرہ کا کسی ضرورت سے استعمال کرنا مطلقا حرام نہیں ہے۔ دراصل مذہب اسلام بڑی حکمتوں والا مذہب اور قانون فطرت ہے۔ جو نسبندی کو حرام فرماتا ہے کیونکہ اس میں انسان کی بچہ پیدا کرنے کی قدرتی صلاحیت و قوت کو ختم کر دینا ہے۔
کبھی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ والدین نسبندی کرا بیٹھے اور جو بچے تھے وہ فوت ہو گئے۔ ایسا ہو بھی جاتا ہے تو سب دن کیلئے اولاد سے محروی ہاتھ آتی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عورت نے نسبندی کرائی اور اسکے شوہر کا انتقال ہو گیا یا طلاق ہو گئی۔ اب اس عورت نے دوسری شادی کی اور دوسرا شوہر اپنی اولاد کا خواہشمند ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مرد نے نسبندی کرائی اب اسکی عورت فوت ہو گئی یا طلاق ہو گئی اب وہ دوسری شادی کرتا ہے اب نئی بیوی اولاد کی خواہشمند ہو۔
کنڈوم کا شرعی حکم
خلاصہ یہ کہ بچہ پیدا کرنے کی سرے سے صلاحیت ختم کر دینا کسی طرح سمجھ میں نہیں آتا اور اسلام کا قانون بے شمار حکمتوں کا خزانہ ہے۔ البتہ عارضی طور سے بچوں کی ولادت روکنے کے ذرائع و وسائل کو اسلام مطلقاً حرام نہیں فرماتا جیسا کہ کنڈوم کا استعمال کرنا۔
اس میں بھی بڑی حکمت ہے کیونکہ کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ عورت کی صحت اتنی خراب ہے کہ وہ ولادت کی متحمل نہیں۔ بلکہ کبھی بعض عورتوں کے بچے صرف آپریشن سے ہی ہو پاتے ہیں اور دو تین بچوں کی ولادت کے بعد ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ آئندہ آپریشن میں سخت خطرہ ہے تو عارضی طور پر مانع حمل ذرائع کا استعمال گناہ نہیں ہے۔
حدیث شریف میں ہے :
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نزول قرآن کے زمانے میں عزل کرتے تھے یعنی انزال کے وقت عورت سے علیحد ہ ہو جاتے تھے۔ یہ حدیث بخاری ومسلم دونوں میں ہے، مسلم شریف میں اتنا اور ہے: یہ بات حضور نبی کریم ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے منع نہیں فرمایا۔
عزل کا حکم
عزل سے متعلق اور بھی احادیث ہیں جن سے اسکی اجازت کا پتہ چلتا ہے۔ جن کی توضیح وتشریح میں علماء کا فتویٰ ہے کہ بیوی سے اسکی اجازت کے بغیر یعنی اسکی مرضی کے خلاف ایسانہ کرے کیونکہ اس میں اسکی حق تلفی ہے۔ خلاصہ یہ کہ ”کسی جائز مقصد کے پیش نظر وقتی طور پر ضبط تولید کے لئے کوئی دوا یا ربڑ کی تھیلی استعمال کرنا جائز ہے۔ لیکن کسی عمل سے ہمیشہ کے لئے قوت تولید کوختم کر دینا کسی طرح جائز نہیں ۔“ (1)
اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بے مقصد خواہ مخواہ ایسا کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ (2)