حضرت سیدنا یزید بن میسرہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”ہم سے پہلی امتوں میں ایک شخص تھا جس نے بہت زیادہ مال ومتاع جمع کیا ہوا تھا۔ اس کی اولاد بھی کافی تھی۔ طرح طرح کی نعمتیں اسے میسر تھیں۔ کثیر مال ہونے کے باوجود وہ انتہائی کنجوس تھا۔ اللہ پاک کی راہ میں کچھ بھی خرچ نہ کرتا۔ ہر وقت اسی کوشش میں رہتا کہ کسی طرح میری دولت میں اضافہ ہو جائے۔
جب وہ بہت زیادہ مال جمع کر چکا تو اپنے آپ سے کہنے لگا :” اب تو میں خوب عیش و عشرت کی زندگی گزاروں گا۔ چنانچہ وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ خوب عیش و عشرت سے رہنے لگا۔ بہت سے خدّام ہر وقت ہاتھ باندھے اس کے حکم کے منتظر رہتے۔ الغرض! وہ ان دنیاوی آسائشوں میں ایسا مگن ہوا کہ اپنی موت کو بالکل بھول گیا۔
ایک دن ملک الموت حضرت سیدناعزرائیل علیہ السلام ایک فقیر کی صورت میں اس کے گھر آئے، اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ غلام فوراً دروازے کی طر ف دوڑے، اور جیسے ہی دروازہ کھولا تو سامنے ایک فقیر کو پایا۔ اس سے پوچھا: ”تو یہاں کس لئے آیا ہے؟“ ملک الموت علیہ السلام نے جواب دیا : ” جاؤ، اپنے مالک کو باہر بھیجو مجھے اُسی سے کام ہے۔“
موت کے فرشتے سے جھوٹ
خادموں نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا: ”وہ تو تیرے ہی جیسے کسی فقیر کی مدد کرنے باہر گئے ہیں۔“ حضرت سیدنا ملک الموت علیہ السلام یہ سن کر وہاں سے چلے گئے۔ ”کچھ دیر بعد دوبارہ آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ غلام باہر آئے تو ان سے کہا:” جاؤ، اور اپنے آقا سے کہو: میں ملک الموت علیہ السلام ہوں۔“
جب اس مالدار شخص نے یہ بات سنی تو بہت خوف زدہ ہوا اور اپنے غلاموں سے کہا:” جاؤ، اور ان سے بہت نرمی سے گفتگو کرو۔“
خدام باہر آئے اور حضرت سیدنا ملک الموت علیہ السلام سے کہنے لگے: ”آپ ہمارے آقا کے بدلے کسی اور کی روح قبض کر لیں اور اسے چھوڑدیں۔ اللہ پاک آپ کو برکتیں عطا فرمائے۔“ حضرت سیدنا ملک الموت علیہ السلام نے فرمایا: ”ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔“ پھر ملک الموت علیہ السلام اندر تشریف لے گئے۔ اور اس مالدار شخص سے کہا: ”تجھے جو وصیت کرنی ہے کر لے، میں تیری روح قبض کئے بغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا۔“
یہ سن کر سب گھر والے چیخ اٹھے، اور رونا دھونا شروع کردیا۔ اس شخص نے اپنے گھر والوں اور غلاموں سے کہا: ”سونے چاندی سے بھرے ہوئے صندوق اور تابوت کھول دو۔ اور میری تمام دولت میرے سامنے لے آؤ۔“ فوراََ حکم کی تعمیل ہوئی، اور سارا خزانہ اس کے قدموں میں ڈھیر کر دیا گیا۔ وہ شخص سونے چاندی کے ڈھیر کے پاس آیا اور کہنے لگا: ”اے ذلیل و بدترین مال! تجھ پر لعنت ہو، تو نے ہی مجھے پروردگار عزوجل کے ذکر سے غافل رکھا۔ تو نے ہی مجھے آخرت کی تیاری سے روکے رکھا۔“
مال کا جواب
یہ سن کر وہ مال اس سے کہنے لگا:” تو مجھے ملامت نہ کر، کیا تو وہی نہیں کہ دنیاداروں کی نظروں میں حقیر تھا؟ میں نے تیری عزت بڑھائی۔ میری ہی وجہ سے تیری رسائی بادشاہوں کے دربار تک ہوئی ورنہ غریب و نیک لوگ تو وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ میری ہی وجہ سے تیرا نکاح شہزادیوں اور امیر زادیوں سے ہوا۔ ورنہ غریب لوگ ان سے کہاں شادی کر سکتے ہیں۔ اب یہ تو تیری بدبختی ہے کہ تو نے مجھے شیطانی کاموں میں خرچ کیا۔ اگر تو مجھے اللہ عزوجل کے کاموں میں خرچ کرتا تو یہ ذلت و رسوائی تیرا مقدر نہ بنتی۔
کیا میں نے تجھ سے کہا تھا کہ تو مجھے نیک کاموں میں خرچ نہ کر؟ آج کے دن میں نہیں بلکہ تو زیادہ ملامت و لعنت کا مستحق ہے۔“ اے ابن آدم! بے شک میں اور تُو دونوں ہی مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں۔ پس بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نیکی کی راہ پر گامزن ہیں اور بہت سے گناہوں میں مستغرق ہیں۔ (امام ابن جوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں 🙂 ”گویا مال ہر شخص سے اسی طرح کہتا ہے۔ لہٰذا مال کی برائیوں سے بچ کر رہو اور اسے نیک کاموں میں خرچ کرو۔“
؎ اجل نے نہ کسرٰی ہی چھوڑا نہ دارا اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
ہر اک لے کے کیا کیا نہ حسرت سدھارا پڑا رہ گیا سب یونہی ٹھاٹھ سارا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے