کرسمس کی مبارک باد دینا یا کرسمس منانا، کرسمس کی بنیاد پر کیک کاٹنا یہ ناجائز و حرام و گناہ ہے اور بعض صورتوں میں کفر ہے۔ اسکی تاریخی حیثیت اور حکم شرعی بیان کرتے ہوئے علماء کرام فرماتے ہیں:
کرسمس کی حقیقت
عیسائیوں کے یہاں کرسمس ڈے کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں یہ چودویں صدی عیسوی کا ایک نیا تہوار ہے۔ لیکن دنیا بھر کے عیسائیوں نے اس اختراعی(1) تہوار کو اتنی مضبوطی سے تھاما کہ یہ سالوں سے عیسائیت کی پہچان و شعار بن گیا ہے۔ ہر چرچ اور عیسائی تنظیم گاہیں اس تاریخ میں مزین کی جاتی ہیں اور دنیا کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ گویا یہ مسیحیوں کا عظم الشان تہوار ہے۔ جس میں اربوں ڈالر کی شراب نہ صرف پی جاتی ہے بلکہ لنڈھائی جاتی ہے۔
پھر اربوں ڈالر کی آتشبازیوں اور آتشی مادوں سے یورپ و امریکہ (2) کے درو دیوار سے آسمانی فضا تھرا اٹھتی ہے۔ ہفتہ عشرہ تک گندھک کی بدبو سے ملک کا ملک مہکتا رہتا ہے۔ بہر حال کرسمس ڈے ان کا مذہبی تہوار ہو یا نہ ہو مگر آج قوی تہوار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ جس سے مسلمانوں کا دور رہنا لازم و ضروری ہے۔
دور رہنے کی دلیل
حضورﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے:
یعنی جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔(3)
اور سنن ابی داؤد کتاب الجہاد میں صفحہ 69، جلد2 میں ہے:
یعنی جس نے کسی مشرک کے ساتھ اشتراک عمل اور راہ و رسم کیا وہ اسی کے مثل ہے۔
مسلمانوں کے لئے حرام ہے کہ ان کے تہواروں میں اپنے گھروں کو انہیں چیزوں سے مزین کریں جن سے وہ لوگ کرتے ہیں۔ پھر اس تاریخ میں انہیں ہدیہ دینا اور ان سے تحفہ لینا بھی حرام و ممنوع ہے۔ اور اگر کرسمس ڈے کی تعظیم مقصود ہو تو (معاذاللہ) یہ کفر ہے۔
نیروز اور مہرجان (4) کےنام پرعطیہ کا تبادلہ "یہ کہہ کر کہ یہ آج کا ہدیہ ہے“ جائزنہیں۔ یعنی ان دونوں دنوں کے ناموں پر تحفےدینا لینا حرام ہے اور اگر مشرکین مجوسی کی طرح ان کی تعظیم بھی کرے گا تو کفر ہو گا۔ (5)
کرسمس کی مبارک دینا؟
اور ہدیے کی طرح مبارکباد کا یوں تبادلہ بھی حرام وناجائز ہے۔ جس سے مسلمانوں کو بچنا ضروری ہے۔ آتش بازی تو ویسے بھی حرام و بد انجام اور شیطانی کام ہے۔ جس میں ضیاع مال کے ساتھ ساتھ تلف جان کا بھی اندیشہ زیادہ ہے۔ چنانچہ ہر کرسمس ڈے کے موقع پر یورپ وامریکہ سمیت کئی ممالک میں درجنوں جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ جس کا اندازہ اخبارات وغیرہ کے مطالعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے مال و جان کو ہلاک ہونے سے بچائیں اور آتش بازی شیطانی کارسازی سے دور رہیں۔“ (6)
سرکارﷺ نےارشاد فرمایا:
یہودیوں اور عیسائیوں سے مشابہت اختیار نہ کرو۔(7)
شرح فقہ اکبر میں ہے: نیروز کے دن مجوس جمع ہوئے تو مسلمان نے کہا ان کا کیسا اچھا طریقہ ہے تو وہ کافر ہو گیا۔ کیونکہ اس نے کفر کو اچھا ثابت کر کے درحقیقت اسلام کی اچھائی کو قبیح قرار دیا۔ اسی طرح آگے بیان فرمایا: جس نے نیروز کے دن کوئی شئی خریدی حالانکہ اس سے قبل وہ اس کو نہیں خریدتا تھا اور یہ خریدنا نیروز کے تعظیم کے ارادے سے ہے تو اس نے کفر کیا کیونکہ اس نے کافروں کی عید کو معظم جانا۔”(8)
کرسمس کی بنیاد پر کیک دینا
کرسمس کہ موقع پر کسی کو کیک دینے کا حکم بھی وہی ہے کہ اگر کافروں کے دن کی تعظیم کے طور پر ہے تو کفر ہے اور اگر کفار کے دن کی تعظیم کی نیت نہیں بلکہ دوستی، تعلق کے طور پر ہے مگر ہے کرسمس کی وجہ سے تو کفر نہیں مگر گناہ پھر بھی ہے جبکہ مقصود کرسمس کا گفٹ دینا ہے۔
اگر صرف اپنے گھر میں بیوی بچوں وغیرہ کے لئے خریدا اور مقصود یہ نہیں کہ آج کرسمس ہے اس لئے میں بھی لیتا چلوں بلکہ ویسے ہی کھانے پینے یا فیملی جائز فنکشن کے لئے خریدا تو اب کوئی حکم نہیں۔ جیسا کہ اوپر سے بھی واضح ہے۔
رہا جس مسلمان نے ایسا کیا تو ہم کیا سمجھیں گے کہ اس نے اس دن کی تعظیم کی نیت سے کیا یا محض دوستی و تعلق کی بنیاد پر کیا یعنی ہم اس کے اس کام کو کفر کہیں گے یا گناہ؟ تو جب تک اس کی نیت کا علم نہیں ہو جاتا کہ اس نے اس دن کی تعظیم کی نیت کی تھی تو ہم اسے گناہ گار مسلمان سمجھیں گے، کافر نہیں سمجھیں گے اور اسکا علم اس کے اپنے بیان سے ہو گا۔
اسی طرح فتاوی قاضی خان میں ہے: ”اگر نیروز کے دن کوئی چیز خریدی جسے اس دن کے علاوہ نہیں خریدتا تو اگر اس خریداری سے مقصود اس دن کی تعظیم ہے جس طرح کفار کرتے ہیں تو کفر ہے اور اگر اس دن کی تعظیم کے لئے نہیں خریدی بلکہ زیادتی و آسودگی کے لئے تو کفر نہیں۔“(9)
عیسائی کیک دے تو کیا کرے
اگر کوئی عیسائی کیک دے تو ہر گزنہ لیا جائے اور اگر جان مال کا خطرہ ہوتو لینے کی اجازت ہے مگر عام طور پر جان مان کا خطرہ نہیں بلکہ خود ساختہ تصور کیا جاتا ہے، ہاں یہ ٹینشن ہوتی ہے کہ اس کافر سے تعلق اچھے ہیں کیک نہ لیا تو ناراض ہو جائے گا لاحول ولاقوۃ الا باللہ۔
اور اگر بفرض محال کہیں جان مال کا خطرہ ہو اور کیک لینا دینا پڑے تو جانوروں کو کھلادیں، پرندوں کو کھلا دیں۔ جس کے دل میں خوف خدا ہو، عشق مصطفٰےﷺ ہو یا جس کا گناہ و ممنوع کام سے بچنے کا ذہن ہو وہ راستہ بنا لیتا ہے بلکہ بحکم قرآن اللہ عزوجل اس کے لئے راستے آسان کر دیتا ہے۔
میری کرسمس
یہ بات بھی یاد رہے کہ 25 دسمبر جسے عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کہا جاتا ہے حقیقتاََ تاریخ پیدائش نہیں ہے جس کا ذکر بلخصوص فتاوی یورب میں موجود ہے اس کا مطالعہ کریں۔ لہٰذا یہ دن مسلمانوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتا تو اس کی خوشی منانا یا کسی طرح شریک ہونا غیر مسلموں کے مذہبی معاملات میں شرکت ہے۔
میری کرسمس کا جواب دینا بھی جائز نہیں، ہاں اگر کسی موقع پر جان یا مال وغیرہ کا خطرہ ہو تو وہاں جواب دینے کی اجازت ہے۔ لیکن ایسی جگہ جہاں اس طرح کے ناجائز کام کرنے پڑیں وہاں سے کسی دوسری جگہ جانے کی کوشش کرنی جاہئے۔
انتہائی اہم مسئلہ
مسلمان دوست 25 دسمبر سے قبل ایک دوسرے کو مذاق میں کہتے ہیں کہ یار 25 دسمبر کو تمہاری عید آرہی ہے اور دوسرا مسلمان دوست بھی مذاق میں کہہ دیتا ہے کہ میری نہیں تیری عید آرہی ہے۔ معاذاللہ عزوجل ۔ اس کا جواب پڑھیں اور توبہ کریں۔ مثلاََ زید اور بکر دونوں نے یہ جملے ایک دوسرے کو مذاق کے طور پر کہے دونوں نے بہت برا کیا کہ یہ کفار کے ایک تہوار کے منانے کی دعوت دینا اگرچہ مذاق میں ہو انتہائی نامناسب ہے۔
ہاں اگر زید نے یہ جملہ بکر مسلمان کو عیسائی سمجھتے ہوئے کہا تو زید کافر ہو گیا۔ اب بکر نے اس کے جواب میں اگر اس کو عیسائی سجھتے ہوئے کہا تو بکر کافر نہ ہو گا۔ کہ زید پہلے ہی بکر کو عیسائی سمجھنے کیوجہ سے کافر ہو چکا اور اگر زید نے بکر کو عیسائی نہ سمجھا تھا تو اب بکر نے اگر زید کو عیسائی سمجھتے ہوئے کہا تو اب بکر کافر ہو جائے گا۔ کیونکہ کسی مسلمان کو کافر کہنا اگر اس وجہ سے ہو کہ کہنے والا اس کو کافر سمجھ رہا ہے تو اس طرح یہ کہنے والا کافر ہو جائے گا۔ جیسا کہ بحرالرائق میں ہے: ”مختار مذہب یہی ہے کہ مسلمان کو کافر سمجھتے ہوئے کافر کہا تو کفر ہے اور گالی کے طور پر کہا تو کفر نہیں۔“ (10) واللہ اعلم و رسولہ
حوالہ جات
1↑ | خود ساختہ |
---|---|
2↑ | اسی طرح غالباََ پوری دنیا میں |
3↑ | مسند احمد |
4↑ | مجوسیوں کی عیدوں کے نام |
5↑ | درمختار جلد2، ص350 اور ردالمختار جلد5، ص481 |
6↑ | فتاویٰ یورپ، صفحہ542، 541، مطبوعہ شبیربرادرز،لاہور |
7↑ | جامع الترمذی، ابواب الاستیذان والادب، جلد 02، صفحہ 557، مکتبہ رحمانیہ، اردوباذار، لاہور |
8↑ | شرح فقہ اکبر، صفحہ نمبر 186، قدیمی کتب خانہ، کراچی |
9↑ | فتاوی قاضی خان، جلد3 صفحہ 519، دارالکتب العلمیہ، بیروت |
10↑ | البحرالرائق207/5 مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ |