ایک صاحب کا بیان ہے: ملتان میں حضرت سیدنا بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر سلام عرض کرنے کے لئے میں حاضر ہوا، فاتحہ کے بعد جب لوٹنے لگا تو ایک شخص پر میری نظر پڑی جو مشغول دعا تھا۔ میں ٹھِٹھک کر وہیں کھڑارہ گیا۔ دراز قد، مگر بدن نہایت ہی کمزور اور چہرے پر اُداسی چھائی ہوئی تھی۔
چونک کر کھڑے ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس کے گلے میں پانی کا ایک ڈول لٹکا ہوا تھا جس میں اس نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں ڈبو رکھی تھیں، اس کے چہرے کو بغور دیکھا تو کچھ آشنائی کی بو آئی۔ میں اس کے فارِغ ہونے کا انتظار کرنے لگا، جب اس نے دعا ختم کی تو میں نے اس کو سلام کیا، اس نے سلام کا جواب دے کر میری طرف بغور دیکھا اور مجھے پہچان لیا۔
لمحہ بھر کے لئے اس کے سوکھے ہونٹو ں پرپھیکی سی مسکراہٹ آئی اور فوراََ ختم ہوگئی پھر حسب سابق وہ اداس ہوگیا۔ میں نے اس سے گلے میں پانی کا ڈول لٹکانے اور اس میں دائیں ہاتھ کی انگلیاں ڈَبوئے رکھنے کا سبب دریافت کیا۔ اس پر اس نے ایک آہ سرد، دل پر درد سے کھینچنے کے بعد کہنا شروع کیا:
پراسرار واقعہ
میری ایک چھوٹی سی پرچون کی دوکان ہے۔ ایک بار میرے پاس آکر ایک بِھکاری نے دست سوال دراز کیا، میں نے ایک سکہ نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا، وہ دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔ پھر دوسرے دن بھی آیا اور اسی طرح سکہ لے کر چلتا بنا۔ اب وہ روز روز آنے لگا اور میں بھی کچھ نہ کچھ اس کو دینے لگا۔ کبھی کبھی وہ میری دوکان پر تھوڑی دیر بیٹھ بھی جاتا اور اپنے دکھ بھرے افسانے مجھے سناتا۔
اس کی داستان غم سن کر مجھے اس پر بڑا ترس آتا، يوں مجھے اس سے کافی ہمدردی ہوگئی اور ہمارے درمیان ٹھیک ٹھاک یارانہ قائم ہوگیا۔ دن گزرتے رہے۔ ایک بار خلاف معمول وہ کئی روز تک نظر نہ آیا مجھے اس کی فکر لاحِق ہوئی کہ ہو نہ ہو وہ بے چارہ بیمار ہوگیا ہے ورنہ اتنے ناغے تو اس نے آج تک نہیں کئے میں نے اس کا مکان تو دیکھا نہیں تھا البتہ اتنا ضرور معلوم تھا کہ وہ شہر کے باہر ویرانے میں ایک جھونپڑی میں تنہا رہتا ہے۔
آخر جھونپڑی مل گئی
خیر میں تلاش کرتا ہوا بالآخر اس کی جھونپڑی تک پہنچ ہی گیا۔ جب اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ہر طرف پرانے چِیتھڑے بکھرے پڑے ہیں، ایک طرف چند ٹوٹے پھوٹے برتن رکھے ہیں، اَلغرض در و دیوار غربت وافلاس کے افسانے سنا رہے تھے۔ ایک طرف وہ ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پر لیٹا کَراہ رہا تھا، وہ سخت بیمار تھا اور ایسا لگتا تھا کہ اب جانبر(جاں۔بر) نہ ہوسکے گا۔
میں سلام کر کے اس کی چارپائی کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور میری طرف دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ہلکی سی چمک آئی، اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا، میں بیٹھ گیا۔ بمشکل تمام اس نے لب کھولے اور مدہم آواز میں بولا:
بھائی! مجھے معاف کردو کہ میں نے تم سے بہت دھوکہ کیا ہے۔ میں نے حیرت سے کہا: وہ کیا؟ کہنے لگا: میں نے تم کو اپنے دکھ درد کے جتنے بھی افسانے سنائے وہ سب کے سب من گھڑت تھے اور اسی طرح گھڑھی ہوئی داستانیں سنا سنا کر میں لوگوں سے بھیک مانگتا رہا ہوں۔ اَب چونکہ بچنے کی بظاہِر کوئی امید نظر نہیں آتی اس لیے تمہارے سامنے حقائق کا انکشاف کئے دیتا ہوں:
پراسرار بھکاری کے انکشافات
”میں متوسط الحال گھرانے میں پیدا ہوا، شادی بھی کی، بچے بھی ہوئے۔ میں کام چور ہوگیا اور مجھے بھیک مانگنے کی لت پڑ گئی۔ میر ی بیوی کو میرے اس پیشے سے سخت نفرت تھی۔ اس سلسلے میں اکثر ہماری لڑائی ٹھنی رہتی۔ رفتہ رفتہ بچے جوان ہوئے میں نے ان کو اعلیٰ درجے کی تعلیم دلوائی تھی۔ ان کو بڑی بڑی ملازمتیں مل گئیں۔ اب وہ بھی مجھ پر خفا ہونے لگے۔
ان کا پیہم اصرار تھا کہ میں بھیک مانگنا چھوڑ دوں لیکن میں عادت سے مجبور تھا، مجھے دولت سے بے حد پیار تھا اوربغیر محنت کے آتی ہوئی دولت کو میں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ آخر کار ہمارا اختلاف بڑھتا گیا اور میں نے بیوی بچوں کو خیر باد کہہ کر اس ویرانے میں جھونپڑی باندھ لی۔“
چار بوریاں اور ان میں سے کیا نکلا؟
اتنا کہنے کے بعد اس نے چیتھڑوں کے ایک ڈھیر کی طرف جو جھونپڑی کے ایک کونے میں تھا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں سے چیتھڑے ہٹاؤ اس کے نیچے تمہیں چار بوریاں نظر آئیں گی ان میں سے ایک بوری کا منہ کھول دو۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ میں نے جونہی بوری کا منہ کھولا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اس پوری بوری میں نوٹوں کی گڈیاں تہ درتہ رکھی ہوئی تھیں اور یہ ایک اچھّی خاصی رقم تھی۔
اب وہ بھکاری مجھے بڑا پراسرارلگ رہا تھا۔ کہنے لگا:یہ چاروں بوریاں اسی طرح نوٹو ں سے بھری ہوئی ہیں۔ میرے بھائی! دیکھو میں نے تم پر اعتماد کر کے اپنا سارا راز فاش کر دیا ہے اب تم کو میری وصیت پر عمل کرنا ہو گا، کرو گے نا! میں نے حامی بھر لی تو کہا: دیکھو! میں نے اس دولت سے بڑاپیار کیا ہے، اسی کی خاطر اپنا بھرا گھر اجاڑا،نہ کبھی اچھا کھایا، نہ عمدہ لباس پہنا، بس اس کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہا۔۔۔۔
پھر تھوڑا رک کر کہا، ذرا نوٹو ں کی چند گڈیا ں تو اٹھا کر لاؤ کہ انہیں تھوڑا پیار کرلوں!! میں نے بوری میں سے چند گڈیاں نکال کر اس کی طرف بڑھا دیں، اس کی آنکھوں میں ایک دم چمک آگئی اوراس نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے انہیں لے لیا اور اپنے سینے پر رکھ دیا اور باری باری چومنے لگا، ہر ایک گڈی کو چومتا اور آنکھوں سے لگاتا جاتا اور کہتا جاتا کہ میری وصیت خاص وصیت ہے اور اس کو تمہیں پورا کرنا ہی پڑے گا۔
بھکاری کی وصیت اور اسکی موت
اور وہ یہ ہے کہ میری زِندگی بھر کی پونجی یعنی چاروں نوٹوں کی بوریوں کو تمہیں کسی طرح بھی میرے ساتھ دفن کرنا ہوگا۔ میں نے وعدہ کرلیا۔ وہ نہایت حسرت کے ساتھ نوٹوں کو چوم رہا تھا کہ اچانک اس کے حلق سے ایک خوفناک چیخ نکل کر فَضا کی پہنائیوں میں گم ہوگئی، میں خوف کے مارے تھرتھر کانپنے لگا، اس کا نوٹوں والا ہاتھ چارپائی کے نیچے کی طر ف لٹک گیا،نوٹ ہاتھ سے گر پڑے۔ اور سر دوسری طرف ڈھلک گیا اور اس کی روح قَفَس عنصری سے پرواز کر گئی۔
میں نے جلد ہی اپنے آپ پر قابو پالیا اور اس کے سینے وغیرہ سے اور نیچے سے بھی نوٹ اکٹھے کر کے اس بوری میں واپس ڈال دیئے۔ بوری کا منہ اچھی طرح بند کر کے چاروں بوریاں حسب سابق چیتھڑوں میں چھپا دِیں۔ پھر چند آدمیوں کو ساتھ لے کر اس کی تکفین کی اور کسی بھی حیلے سے بڑی سی قبر کھدوا کر حسب وصیت وہ چاروں بوریاں اس کے ساتھ ہی دفن کردیں۔
کاروبار میں خسارہ اور شیطان کا مشورہ
کچھ عرصے بعد مجھے کاروبار میں خسارہ شروع ہوگیا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ میں اچھا خاصا مقروض ہوگیا۔ قرض خواہوں کے تقاضوں نے میرے ناک میں دم کردیا، ادائے قرض کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی تھی۔ ایک دن اچانک مجھے اپنا وہی پرانا یار پراسرار بھکاری یادآگیا۔ اور مجھے اپنی نادانی پر رہ رہ کر افسوس ہونے لگا کہ میں نے اس کی وصیت پر عمل کر کے اتنی ساری رقم اس کے ساتھ کیوں دفن کردی۔
یقینامرنے کے بعد اسے قَبر میں اس کے مال نے کوئی نفع نہ دینا تھا، اگر میں اس مال کو رکھ لیتا تو آج ضرور مالدار ہوتا۔ مزید شیطان نے مجھے مشورے دینے شروع کیے کہ اب بھی کیا گیا ہے۔
وہاں قَبر میں اب بھی وہ دولت سلامت ہوگی۔ میں نے کسی پر ابھی تک یہ راز ظاہِر کیا ہی نہیں ہے، حیلہ کر کے میں نے تو بوریاں دفن کی ہیں، وہ اب بھی قَبر میں موجود ہوں گی۔شیطان کے اِس مشورے نے مجھ میں کچھ ڈھارس پیدا کی اورمیں نے عزم کرلیا کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے میں وہ نوٹوں کی بوریاں ضرور حاصل کر کے رہوں گا۔
قبر کی کھدائی
ایک رات کدال وغیرہ لے کر میں قَبرستان پہنچ ہی گیا۔ میں اب اس کی قَبر کے پاس کھڑا تھا، ہر طرف ہولناک سناٹا اور خوفناک خاموشی چھائی ہوئی تھی، میرا دل کسی نامعلوم خوف کے سبب زور زور سے دھڑک رہا تھا اور میں پسینے میں شرابور ہورہا تھا۔
آخرِ کار ساری ہمت جمع کر کے میں نے اس کی قَبر پر کدال چلا ہی دی۔دو۲ تین ۳ کدال چلانے کے بعد میرا خوف تقریباً جاتا رہا، تھوڑی دیر کی محنت کے بعد میں اس میں ایک مناسب سا شگاف کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
اب بس ہاتھ اندر بڑھانے ہی کی دیر تھی لیکن پھر میری ہمت جواب دینے لگی، خوف و دہشت کے سبب میرا سارا وجود تھرتھر کانپنے لگا ،طرح طرح کے ڈراؤنے خیالات نے مجھ پر غلبہ پانا شروع کیا، ضمیربھی چلّا چلّا کر کہہ رہا تھا کہ لَوٹ چلو اور مال حرام سے اپنی عاقبت کو برباد مت کرو لیکن بِالآخر حرص و طمع غالب آئی اور مالدار ہوجانے کے سنہرے خواب نے ایک بار پھر ڈھارس بندھائی کہ اب تھوڑی سی ہمت کرلو منزل مراد ہاتھ میں ہے۔
قبر کے شگاف میں ہاتھ ڈالا تو کیا ہوا؟
آہ! دولت کے نشے نے مجھے انجام سے بالکل غافل کردیا اور میں نے اپنا سیدھا ہاتھ قَبر کے شگاف میں داخل کردیا! ابھی بوری ٹٹول ہی رہا تھا کہ میرے ہاتھ میں انگارا آگیا۔ درد وکَرب سے میرے منہ سے ایک زوردار چیخ نکل گئی اور قبرستان کے بھیانک سناٹے میں گم ہوگئی، میں نے ایک دم اپنا ہاتھ قَبر سے باہر نکالا اور سرپر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔
میرا ہاتھ بری طرح جھلس چکا تھا اور مجھے سخت جلن ہورہی تھی، میں نے خوب رو رو کر بارگاہ خداوندی عزوجل میں توبہ کی میرے ہاتھ کی جلن نہ گئی۔ اب تک بے شمار ڈاکٹروں اور حکیموں سے علاج بھی کراچکا ہوں لیکن ہاتھ کی جلن نہیں جاتی۔ ہاں انگلیاں پانی میں ڈبونے سے کچھ آرام ملتا ہے۔ اسی لیے ہر وقت اپنا دایاں ہاتھ پانی میں رکھتا ہوں۔
اس شخص کی یہ رقت انگیز داستان سن کر میرا دل ایک دم دنیا سے اچاٹ ہوگیا۔ دنیا کی دولت سے مجھے نفرت ہوگئی اور بے ساختہ قرآن عظیم کی یہ آیات مجھے یاد آگئیں:
(1) ترجمہ : تمہیں غافل رکھا مال کی زیادہ طلبی نے یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔ (1)
درس عبرت
پیارے بھائیو! دیکھا آپ نے؟ مال کی محبت نے کس قدر تباہی مچائی۔ بھکاری اپنے مال حرام کو چومتے چومتے مرا اور اس کا دوست اس مال حرام کو حاصل کرنے گیا تو اس مصیبت میں پڑا۔ ﷲ عزوجل اس پراسرار بھکاری اور اس کے دوست کے گناہوں کو معاف فرمائے اور ان دونوں کی بے حساب مغفرت کرے اور یہ دعائیں ہم گنہگاروں کے حق میں بھی قبول فرمائے۔ آمین
جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سو نمونے مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بو نے
کبھی غور سے بھی یہ دیکھا ہے تو نے جو آباد تھے وہ محل اب ہیں سُونے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
مصنف کا نوٹ
(؎ کچھ عرصہ پہلے یہ واقعہ بطور حقیقت ایک گجراتی اخبار میں شائع ہوا تھا۔ میں نے اسے بے حد عبرتناک پایا، لہٰذا اپنی یاد داشت کے مطابق نیز کچھ تصرّف کے ساتھ اپنے انداز میں تحریر کیا ہے تاکہ مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لئے خوب خوب سامان عبرت مہیا ہو۔ سگ مدینہ عفی عنہ)
حوالہ جات
1↑ | پ۳۰، التکاثر ۱،۲ |
---|