نوحہ کرنے کے بارے میںہماری شریعت کیا رہنمائی کرتی ہے؟

نوحہ سے مراد یہ ہے کہ میت کے اوصاف مبالغہ کے ساتھ بیان کر کے آواز سے رویا جائے،اسے بین بھی کہتے ہیں اوریہ بالاجماع حرام ہے۔(1)بہار شریعت ،حصہ۴،مسئلہ نمبر۱۷، ص۳۵۷
اس کی مذمت کرتے ہوئے سید دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
- ”جو گریبان پھاڑے ،چہرہ پیٹے اوراور جاہلیت کی پکار پکارے وہ ہم میں سے نہیں ۔”(2)سنن الترمذی ، کتاب الجنائز ، رقم الحدیث ۱۰۰۱، ج۲،ص۳۰۳
” جو آنسو آنکھ اور دل سے ہو تو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور رحمت ہے اور جو ہاتھ اور زبان سے ہو تو وہ شیطان کی طرف سے ہے ۔”(3)مشکوۃ،کتاب الجنائز،رقم۱۷۴۸،ج۱،ص۴۸۶
اگر کسی کے گھر کوئی میت ہو جائے تو علمِ دین سے محروم اس گھر اور آس پڑوس کی خواتین نوحہ کرنے کو لازم تصور کرتی ہیں، اگر کوئی مسلمان بہن اس مکروہ کام میں ان کا ساتھ نہ دے تو اس پر طعن و تشنیع کے تیر برسا کر اس بیچاری کی خوب دل آزاری کی جاتی ہے۔ ایسی خواتین یاد رکھیں کہ اس کی اُخروی سزا بہت کَڑی ہے جیسا کہ حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرور عالم ﷺ نے فرمایا: ”نوحہ کرنے والی عورت اگر بغیر توبہ کیے مر جائے تو قیامت کے دن اسے گندھک کی قمیص اور خارش کی چادر پہنائی جائے گی”۔(4)صحیح مسلم ، کتاب الجنائز ، رقم الحدیث ۹۳۴،ص۴۶۵
یاد رکھو!
رقت قلبی کی وجہ سے بلا آواز رونے میں کوئی قباحت نہیں ہے، سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا: ”یاد رکھو! بے شک اللہ پاک نہ آنسوؤں سے رونے پر عذاب کرتا ہے نہ دل کے غم پر۔ (پھر زبان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا) ہاں اس پر عذاب یا رحم فرماتا ہے ۔”(5)صحیح مسلم ، کتاب الجنائز ، باب البکاء علی المیت، رقم ۹۲۴،ص۴۲۰
اللہ پاک ہمیں اس حوالے سے بھی اپنی زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
حوالہ جات