امت مسلمہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپے ہوئے 100 سال مکمل ہو گئے۔ معاہدہ لوزان جلد ختم ہونے والا ہے۔ ترکی اور شام میں آئے حالیہ زلزلے کسی خاص پیغام کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ آئیے اس راز کو حدیث پاک کی روشنی سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک صاحب نے حضور سید عالم ﷺ سے سوال کیا:
آپ کی امت پر کشادگی کی مدت کتنی ہے؟ یعنی کتنے سالوں بعد امت پریشانی سے خوشی میں جایا کرے گی؟ ان صاحب نے تین بار سوال کیا لیکن جواب نہیں دیا گیا۔ پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا سائل کہاں ہے؟ سائل لایا گیا تو فرمایا : تم نے ایک بڑی شے کے بارے سوال کیا ہے۔ میری امت کی کشادگی کی مدت سو سال ہے۔ یعنی ہر سو سال بعد ان پر خوشی آئے گی اس سے پہلے پریشانیوں مصیبتوں میں گھرے ہوں گے۔ ان صاحب نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اس کی کوئی نشانی ہے؟ فرمایا: “ہاں زمین میں دھنسنا، زلزلے آنا، اور لوگوں پر شیطان کا آنا۔”(1)
ملک شام میں خلافت
اس سال ایک صدی ہو گئی خلافت عثمانیہ کے سقوط کو اور اسی سال ہم نے کثیر زلزلے بھی دیکھے ہیں۔ ایک اور مقام پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
اے ابن ابی حوالہ جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدسہ یعنی شام کی طرف منتقل ہو چکی تو زلزلے اور غم بڑھ جائیں گے اور بڑے بڑے کام قریب ہو جائیں گے۔ قیامت لوگوں کے اتنے پاس ہو گی جتنا میرا ہاتھ تمہارے سر کے قریب ہے۔(2)
اس سال کثرت سے زلزلے، لوگوں کے غموں کا بڑھ جانا، کرونا اور سیلاب جیسے بڑے امور ظاہر ہو چکے ہیں۔ شاید یہ ملکِ شام میں خلافت قائم ہونے کا وقت قریب ہونے کا اشارہ ہے۔ کیونکہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب امام مہدی آئیں گے ان سے پہلے بھی شام میں ایک خلیفہ آ چکا ہو گا اور شام کے حالات انتہائی نازک ہیں یعنی شبِ دیجور کے ہولناک اندھیرے چھا چکے ہیں اور اب سحر قریب ہے کیونکہ ہر رات کی صبح ضرور ہوتی ہے۔ وہاں کسی بھی وقت جہاد کا اعلان اور خلافت کا قیام ممکن ہے اور یہ امت کے سنہرے دور کا آغاز ہو گا کیونکہ امت نے سو سال سے کوئی خوشی نہیں دیکھی۔