اسلامی سال کا پہلا مہینا محرم الحرام ہے اس ماہ مبارک کی تعظیم کی وجہ سے اسے "محرم” کا نام دیا گیا ہے۔ (1)
اللہ پاک نے اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام کے بابرکت مہینے سے فرمایا اور ہمیں اس میں اجر و ثواب اور خیر و برکت کے کثیر مواقع عطا فرمائے۔ بندہ مومن کے لئے اپنا پسندیدہ بندہ بننے کی راہیں کھول دیں تاکہ سال کے شروع ہی سے بندہ اپنے رب کے قریب ہو جائے اور توبہ کرے تو اس کے گناہ بخش دیئے جائیں۔ نیکیوں کا اثر بندے پر سال کے اختتام تک رہے حتی کہ سال کا آخری مہینا ذوالحجۃ الحرام بھی عبادت میں گزرے۔
محرم الحرام کی فضیلت
(1) ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! رمضان کے علاوہ میں کس مہینے میں روزے رکھوں؟ ارشاد فرمایا: اگر تم نے رمضان کے بعد کسی مہینے کے روزے رکھنے ہوں تو محرم کے روزے رکھو کہ یہ اللہ پاک کا مہینا ہے، اس مہینے میں ایک دن ہے جس میں اللہ پاک نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور دوسروں کی توبہ بھی قبول فرمائے گا۔ (2)
(2) فرمانِ آخری نبی ﷺ: ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ پاک کے مہینے محرم کے روزے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔ (3)
محرم کے پہلے عشرے کی عظمت
حضرت سید نا ابو عثمان نہدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام تین عشروں (days-10) کی تعظیم کیا کرتے تھے۔
- رمضان المبارک کا آخری عشرہ
- ذو الحجۃ الحرام کا پہلا عشرہ
- محرم الحرام کا پہلا عشرہ۔ (4)
یوم عاشورا
اس مبارک ماہ میں 10 محرم الحرام کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، اسے یوم عاشورا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 10 محرم الحرام کو عاشورا کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس دن اللہ پاک نے 10 انبیائے کرام کو اعزاز و اکرام سے نوازا۔ (5)
یوم عاشورا کے دن پیش آنے والے واقعات
یوم عاشورا کو انبیائے کرام علیہم السلام سے خصوصی نسبت حاصل ہے:
(1) یوم عاشورا کو حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کی مدد کی گئی اور فرعون اور اس کے پیروکار (Followers) اس میں ہلاک ہوئے۔
(2) حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ “ پر ٹھہری۔
(3) حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی۔
(4) حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام کی قبولیتِ توبہ کا دن ہے۔
(5) حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے نکالے گئے۔
(6) اسی دن حضرت عیسی روح اللہ علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اسی دن آپ علیہ السلام کو آسمان پر اُٹھایا گیا۔
(7) عاشورا کے دن ہی حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔
(8)حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی اسی دن ولادت ہوئی۔
(9) حضرت سیدنا یعقوب علیہ السلام کی بینائی کی کمزوری اسی دن دور ہوئی۔
(10) حضرت ادریسں علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔
(11) اسی روز اللہ پاک نے حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش دور فرمائی۔
(12) یوم عاشورا کو ہی حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت عطا ہوئی۔ (6)
يوم عاشورا اور واقعہ کربلا
ماہ محرم الحرام ہر سال ہمیں شہدائے کربلا اور بالخصوص نواسۂ رسول، سید الشہداء امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد دلاتا ہے۔ کیونکہ 10 محرم الحرام اکسٹھ (61) ہجری کو تاریخ اسلام میں حق و باطل (Right and wrong) کے درمیان ایک عظیم معرکہ (Battle) پیش آیا جسے واقعہ کربلا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس میں شہدائے کربلا کے استقامت بھرے انداز نے تمام اہل حق کو باطل کے سامنے ڈٹ جانے اور ضرورت پڑنے پر دین اسلام کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے کا عظیم الشان سبق دیا۔ اگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی بیعت (Pledge allegiance) کرتے تو وہ تمام لشکر آپ کے قدموں میں ہوتا، آپ کا احترام کیا جاتا، خزانوں کے منہ کھول دیئے جاتے اور دولت دنیا قدموں پر لٹا دی جاتی۔ مگر جس کا دل دنیا کی محبت سے خالی ہو بلکه خود دنیا جس کے گھر کی خادمہ ہو وہ اس دنیا کے رنگ و روپ پر کیا نظر ڈالے گا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے راحتِ دنیا کے منہ پر ٹھو کر مار دی اور راہِ حق میں پہنچنے والی مصیبتوں کا خوش دلی سے استقبال کیا اور اس قدر آزمائشوں کے باوجود یزید پلید جیسے فاسق معلن (7) شخص کی بیعت کا خیال بھی اپنے مبارک دل میں نہ آنے دیا۔ اپنا گھر لٹانا اور اپنا خون بہانا منظور فرمایا مگر اسلام کی عزت پر حرف نہیں آنے دیا۔ خدا کی قسم! میدان کربلا میں کربلا والوں کا اسلام کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا، رہتی دنیا تک مسلمانوں کیلئے بہت بڑا سبق ہے۔ (8)
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہو تا ہے ہر کربلا کے بعد
حوالہ جات
1↑ | تفسیر ابن کثیر |
---|---|
2↑ | مسند امام احمد، ج 1، ص 327، حدیث 1334، دار الفکر بيروت |
3↑ | مسلم ص 456 حدیث 2755، دار الكتاب العربي بيروت |
4↑ | لطائف المعارف، ص 36 |
5↑ | فيض القدير ج 4 ص 394 تحت الحديث 5365، دار الكتب العلمية بيروت |
6↑ | عمدة القاری، ج 8، ص 233، دار الفكر بيروت |
7↑ | یعنی اعلانیہ گناہ کرنے والے |
8↑ | محرم کے فضائل، ص 14 |