ہر کھیل کا کھلاڑی وقت کے ساتھ ساتھ اس کھیل سے آؤٹ ہوتا جاتا ہے، تھک جاتا ہے، رہ جاتا ہے، کمزور پڑ جاتا ہے۔ کرکٹر،فٹبالر، وغیرہ ایک وقت کے بعد میدان چھوڑ کر صرف کوچنگ کر سکتے ہیں۔ جبکہ صرف علم دین کے میدان کا شہسوار ایسا ہوتا ہے جو علم دین کی برکات سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر اور پھر مضبوط ترین ہوتا جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ میدان کے رازوں کو سمجھتا اور مزید تازہ دم ہوتا، قوی ہوتا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ دنیاوی تعلیم کے اساتذہ و پروفیسر بھی بہتیرے دیکھے جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے اور پاگل پن کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ مگر کوئی عالمِ دین کبھی نفسیاتی مسائل کا شکار نہیں دیکھا۔ پاگل پن کی حد تک پہنچنا تو دور کی بات ہے۔
یہ علم دین کی برکات ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ دل و دماغ اور چہرے پر تازگی بڑھتی جاتی ہے۔ یہی وجہ کہ علماء کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے۔ کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے چہرے کی تازگی و نور بڑھتا جاتا ہے۔
علم دین کی برکات
- علمِ دین کی بے شمار برکات میں سے چہرے کا حسین و تازہ رہنا،
- ذلت بھرے فقر سے پاک رہنا،
- محتاجی بھرے بڑھاپے سے محفوظ رہنا کہ بعض دنیا دار پیشاب پاخانہ کرنے میں بھی لوگوں کے محتاج ہو جاتے ہیں،
- کم مال پر نہ صرف گزارہ کرنا بلکہ اس پر شاکر رہنا،
- اطمینان و سکون کا وہ سںمندر نصیب ہونا جو شہنشاہوں کو نصیب نہیں ہوتا،
- عموما اولاد کا نافرمان نہ ہونا،
- معاشرے کے افراد کا دینی علم والوں کی عزت و عصمت و مال کی حفاظت کرنا،
- دینی علم والوں کے جنازوں میں لوگوں کا بغیر کسی لالچ کے شریک ہونا،
- کثرتِ مطالعہ کے سبب ذہنی بگاڑ پیدا نہ ہونا۔ جبکہ دنیا دار کثرت مطالعہ کے سبب ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔
لہذا اپنے بچوں کو علماء بنائیں تاکہ دنیا و آخرت سنور جائے۔ اللہ رب العزت ہمیں علماء اھل سنت میں رکھے اور انہی کے گروہ میں ہمارا حشر کرے۔ آمین