عقل کے چور

حضرت سیدنا عبد الواحد بن یزید علیہ رحمۃاللہ المجید فرماتے ہیں: ”ایک مرتبہ میں ایک راہب کے پاس سے گزرا جو لوگوں سے الگ تھلگ اپنے صومعہ(1)یعنی عبادت خانہ میں رہتا تھا۔
خالق و مالک کی عظمت
میں نے اس سے پوچھا :”اے راہب !تو کس کی عبادت کرتا ہے؟” کہنے لگا: ”میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس نے مجھے اور تجھے پیدا کیا ۔”میں نے پوچھا:” اس کی عظمت وبزرگی کا کیا عالم ہے؟” اس نے جواب دیا: ”وہ بڑی عظمت و مرتبت کا مالک ہے۔ اس کی عظمت ہر چیز سے بڑھ کر ہے ۔” میں نے پوچھا :”انسان کو دولتِ عشق کب نصیب ہوتی ہے ؟” تو وہ کہنے لگا:” جب اس کی محبت بے غرض ہو اور وہ اپنے معاملہ میں مخلص ہو۔”
خالص محبت
میں نے پوچھا:”محبت کب خالص و بےغرض ہوتی ہے ؟” اس نے جواب دیا:” جب غم کی کیفیت طاری ہو اور وہ محبوب کی اطاعت میں لگ جائے ۔”میں نے کہا:” محبت میں اخلاص کی پہچان کیا ہے ؟” کہنے لگا:” جب غمِ فرقت کے علاوہ کوئی اور غم نہ ہو۔
میں نے پوچھا:” تم نے خلوت نشینی کو کیوں پسند کیا ؟”کہنے لگا:”اگر تو تنہائی وخلوت کی لذت سے آشنا ہوجائے تو تجھے اپنے آپ سے بھی وحشت محسوس ہونے لگے ۔”
خلوت نشینی کا فائدہ
میں نے پوچھا:”انسان کو خلوت نشینی سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے ؟” راہب نے جواب دیا:” لوگو ں کے شر سے امان مل جاتی ہے اور ان کی آمد و رفت کی آفت سے جان چھوٹ جاتی ہے۔” میں نے کہا:” مجھے کچھ اور نصیحت کر۔” تو وہ کہنے لگا: ”ہمیشہ حلال رزق کھاؤ پھر جہاں چاہو سوجا ؤ تمہیں غم وپریشانی نہ ہوگی۔”
میں نے پوچھا:” راحت وسکون کس عمل میں ہے ؟” اس نے کہا:” خلافِ نفس کام کرنے میں۔”مَیں نے پوچھا: ”انسان کو راحت وسکون کب میسر آئے گا ؟ ”تو وہ کہنے لگا:” جب وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔”
گوشہ نشینی۔ واحد حل
میں نے پوچھا:” اے راہب! تو نے دنیا سے تعلق توڑ کر اس صومعہ (یعنی عبادت خانہ) کو کیوں اختیار کرلیا؟” کہنے لگا:” جو شخص زمین پر چلتا ہے وہ اوندھے منہ گر جاتا ہے اور دنیا داروں کو ہر وقت چوروں کا خوف رہتا ہے، پس میں نے دنیا داروں سے تعلق ختم کرلیا اور دنیا کے فتنہ وفساد سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے آپ کواس ذات کے سپرد کردیا جس کی بادشاہی زمین و آسمان میں ہے۔
دنیا دار لوگ عقل کے چور ہیں پس مجھے خوف ہوا کہ یہ میری عقل چُرا لیں گے اور حقیقی بات یہ ہے کہ جب انسان اپنے دل کو تمام خواہشاتِ نفسانیہ اور برائیوں سے پاک کرلیتا ہے تو اس کے لئے زمین تنگ ہو جاتی ہے (یعنی اسے دنیا قید خانہ معلوم ہوتی ہے) پھر وہ آسمانوں کی طر ف بلندی چاہتا ہے اور قُربِ الٰہی کا متمنّی ہو جاتا ہے اور اس بات کو پسند کرتا ہے کہ ابھی فوراََ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔”
پھر میں نے اس سے پوچھا:” اے راہب! تو کہاں سے کھاتا ہے ؟” کہنے لگا:” میں ایسی کھیتی سے اپنا رزق حاصل کرتا ہوں جسے میں نے کاشت نہیں کیا بلکہ اسے تو اس ذات نے پیدا فرمایا ہے جس نے یہ چکّی یعنی داڑھیں میرے منہ میں نصب کیں،میں اسی کا دیا ہوا رزق کھاتا ہوں۔”
انسان ایک مسافر
میں نے پوچھا:” تم اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہو؟” کہنے لگا:” اس مسافر کا کیا حال ہوگا جو بہت دشوار گزار سفر کے لئے بغیر زادِراہ کے روانہ ہوا ہو ، اور اس شخص کا کیا حال ہوگا جو اندھیری اور وحشت ناک قبر میں اکیلا رہے گا، وہاں کوئی غم خوار و مونِس نہ ہوگا پھر اس کا سامنا اس عظیم و قہار ذات سے ہوگا جو احکمُ الحاکمین ہے جس کی بادشاہی تمام جہانوں میں ہے۔” اتنا کہنے کے بعد وہ راہب زار و قطار رونے لگا۔
میں نے پوچھا:” تجھے کس چیز نے رلایا ؟” کہنے لگا:”مجھے جوانی کے گزرے ہوئے وہ ایام رُلا رہے ہیں جن میں ،مَیں کچھ نیکی نہ کرسکا اور سفرِ آخرت میں زادِ راہ کی کمی مجھے رُلا رہی ہے، کیا معلوم میرا ٹھکانا جہنم ہے یا جنت؟”
غریب کون؟
میں نے پوچھا:” غریب کون ہے ؟” کہنے لگا:” غریب اور قابلِ رحم وہ شخص نہیں جو روزی کے لئے شہر بہ شہر پھرے بلکہ غریب (اور قابلِ رحم) تو وہ شخص ہے جو نیک ہو اور فاسقوں میں پھنس جائے ۔”
بار بار صرف(زبان سے) استغفار کرنا (اور دل سے توبہ نہ کرنا) تو جھوٹو ں کا طریقہ ہے ، اگر زبان کو معلوم جاتا کہ کس عظیم ذات سے مغفرت طلب کی جارہی ہے تو وہ منہ میں خشک ہو جاتی۔ جب کوئی دنیا سے تعلق قائم کرتا ہے تو موت اس کا تعلق ختم کردیتی ہے ۔
توبہ کی برکت
پھر کہنے لگا:”اگر انسان سچے دل سے توبہ کرے تو اللہ پاک اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بھی معاف فرما دیتا ہے، اور جب بندہ گناہوں کو چھوڑنے کا عزمِ مصمّم کرلے تو اس کے لئے آسمانوں سے فتوحات اترتی ہیں،اور اس کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں ، او ر ان دعاؤں کی برکت سے اس کے سارے غم کافور ہوجاتے ہیں۔”
راہب کی حکمت بھری باتیں سن کر میں نے اس سے کہا:” میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ کیا تم اس بات کو پسند کرو گے ؟”تو وہ راہب کہنے لگا:”میں تمہارے ساتھ رہ کر کیا کروں گا؟ مجھے تو اس خدا پاک کا قرب نصیب ہے جو رزّاق ہے اور روحوں کو قبض کر نے والا ہے۔ وہی موت وحیات دینے والا ہے ، وہی مجھے رزق دیتا ہے ،کوئی اور ایسی صفات کا مالک ہو ہی نہیں سکتا۔ (یعنی مجھے وہ ذات کافی ہے ، میں کسی غیر کا محتاج نہیں)
حوالہ جات