آج کل بعض لوگ از روۓ جہالت و نادانی طلاق کے بارے میں معلومات نہ ہونے کی وجہ سے اپنی عورتوں کو تین یا اس سے زیادہ طلاقیں دے ڈالتے ہیں. یا کاغذوں میں لکھوا دیتے ہیں اور پھر کبھی بات کو دوبارہ بنانے کیلئے اس کی سزا یعنی حلالے سے بچنے کے لئے جھوٹ، سچ بولتے اور مفتیان کرام اور علماء دین کو پریشان کرتے ہیں۔
طلاق کا شرعی طریقہ اور تین طلاق کا حکم
کاش یہ لوگ طلاق سے قبل ہی علماء سے مشورہ کر لیں تو یہ نوبت ہی نہ آۓ۔ تین طلاقیں بیک وقت دینا گناہ ہے۔ طلاق کا مقصد صرف یہ ہے کہ بیوی کو اپنے نکاح سے باہر کر کے دوسرے کیلئے حلال کرنا کہ بعد عدت وہ کسی اور سے نکاح کر سکے۔ یہ مقصد صرف ایک طلاق یا 2 سے بھی حاصل ہو جاتا ہے۔
ایک طلاق دیکر اس کو عدت گزارنے کے لئے چھوڑ دیا جاۓ اور عدت کے اندر اسکو ایک اجنبی و غیر عورت کی طرح رکھا جاۓ اور زبان سے بھی رجعت نہ کی جاۓ. تو بعد عدت وہ دوسرے سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔ اور اس کے نکاح میں بھی صرف نکاح کرنے سے بغیر حلالے کے واپس آسکتی ہے اور تین طلاقوں کے گناہ اور وہال سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
بوقت ضرورت طلاق اسلام میں مشروع ہے کیونکہ میاں بیوی کا رشتہ کوئی پیدائشی خونی اور فطری رشتہ نہیں ہوتا بلکہ یہ تعلق عموماً جوانی میں قائم ہوتا ہے۔ تو یہ ضروری نہیں کہ یہ محبت قائم ہو ہی جائے۔ بلکہ مزاج اپنے اپنے، عادتیں اپنی اپنی، طور طریقے اپنے اپنے، خیالات و رجحانات الگ الگ ہونے کی صورت میں بجاۓ محبت کے نفرت بھی پیدا ہو جاتی ہے. اور ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنا نہایت مشکل بلکہ کبھی کبھی ناممکن ہو جاتا ہے۔
نوبت رات، دن کے جھگڑوں، مار پیٹ یہاں تک کہ کبھی کبھی قتل و خونریزی تک آ جاتی ہے۔ بیوی شوہر ایک دوسرے کیلئے جانی دشمن بن جاتے ہیں۔ تو ان حالات کے پیش نظر اسلام میں طلاق رکھی گئی ہے کہ لڑائیوں، جھگڑوں، نفرتوں اور معرکہ آرائیوں کے بجاۓ صلح و صفائی اور حسن و خوبی کے ساتھ اپنا اپنا راستہ الگ الگ کر لیا جاۓ۔
طلاق کے بارے میں معلومات
اس لئے جن مذہبوں اور دھرموں میں طلاق نہیں ہے یعنی جس کے ساتھ بندھ گیا وہ ہمیشہ کے لئے بندھ گیا جان چھڑانے کا کوئی راستہ نہیں۔ ان میں عورتوں کے قتل تک کر دئے جاتے ہیں یا زندگی چین وسکون کے بجاۓ عذاب بنی رہتی ہے۔ آج عورتوں کی ہمدردی کے نام پر کچھ اسلام دشمن طاقتیں ایسے قانون بنا رہی ہیں جن کی رو سے طلاق کا وجود مٹ جاۓ اور کوئی طلاق نہ دے سکے۔ یہ لوگ عورتوں کے ہمدرد نہیں بلکہ ان کا قتل کر رہے ہیں۔
آج مٹی کا تیل بدن پر ڈال کر عورتوں کو جلانے، پانی میں ڈبونے، زہریلی گولیاں کھلا کر ان کو مارنے وغیرہا ایذارسانی کے ہولناک واقعات کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں۔ جو کسی بھی صورت حال میں طلاق کے روادار نہیں اور جب سے ہر حال میں طلاق کو عیب اور برا جاننے کا رواج بڑھا تبھی سے یہ دردناک واقعات کی شرح بڑھ گئی۔
ہم پوچھتے ہیں کیا کسی عورت کو مارنا، جلانا، ڈبونا ہے رحمی سے پیٹنا بہتر ہے یا اسکو مہر کی رقم دیکر ساتھ عزت کے طلاق دے دینا۔ کسی عورت کے لئے اپنے شوہر کو کسی طرح راضی کر کے اس سے طلاق حاصل کر لینا اور اپنی گلو خلاصی کرا کے کسی اور سے نکاح کر لینا بہتر ہے یا یاروں، دوستوں، آشناؤں سے مل کر شوہر کوقتل کرانا۔
آج اس قسم کے واقعات و حادثات کی کثرت ہے جنکا اندازہ اخبارات کا مطالعہ کرنے سے ہوتا ہے۔ اگر معاشرے کو برقرار رکھنے کیلئے اسلام نے میاں بیوی کے جو حقوق بتاۓ ہیں ان پرعمل کیا جاۓ تو یہ نوبتیں نہ آئیں۔ یہ لڑائی جھگڑے اور طلاق تک بات ہی نہ پہنچے۔ (1)
حوالہ جات
1↑ | غلط فہمیاں اور ان کی اصلاح، صفحہ 74-76 |
---|