صبر کا انعام

صبر کی فضیلت و اہمیت اور اسکا انعام

ہمارے عرف عام میں ایک محاورہ بہت مشہور ہے ” صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے "۔ جی ہاں یہ جملہ بلکل درست ہے، واقعی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، لیکن صبر کیا ہے؛ اور اس کا پھل کیا ہے یہ جاننا بہت ضروری ہے۔

ایک انسان کی زندگی مختلف حالات، واقعات و حادثات پر مشتمل ہوتی ہے۔ کبھی ہنس کھیل رہا ہوتا ہے، کبھی رو رہا ہوتا ہے۔ کبھی مصیبتوں کی آندھیوں میں مبتلا ہوتا ہے، کبھی مزے کر رہا ہوتا ہے۔ الغرض” انسان کی زندگی ایک حال پر نہیں رہتی۔ کبھی خوشی، کبھی غم۔ بہرحال خوشی کی حالت میں اللّٰه پاک کا شکر ادا کرے، غم کی حالت میں صبر کرے۔

صبر کی تعریف

صبر کہتے ہیں کہ اس کام سے رک جانا جس سے عقل یا شریعت رکنے کا کہہ رہی ہو ۔ یہ ہر گز صبر نہیں کہ جب خاموش رہ کر برداشت کرنا تھا اس وقت خاموش نہیں رہے اور شکرہ شکایت کرتے رہے اور جب غصہ ٹھنڈا ہو گیا تو اب کہتے ہیں میں تو بس صبر ہی کر رہا ہوں۔

مثال کے طور پر کسی کا کاروبار تباہ ہو گیا۔ عقل کہتی ہے کہ کاروبار تو تباہ ہو گیا جو ہو گیا سو ہوگیا لہذا خاموش ہو جائے۔ چیخنے چلانے اور واویلا کرنے سے رک جائے، شور نہ مچائے، ہر کسی کو اپنی داستان غم نہ سنائے۔ کیونکہ اب نہ اس کا کاروبار واپس آنا ہے اور نہ کسی نے اس کو پیسہ لاکر دینا ہے لہذا صبر، صبر، اور صبر کرے۔

صبر کا انعام

شریعت بھی حکم دیتی ہے کہ اطمینان، سکون، بلند حوصلہ، تبسم، تحمل، برداشت، بھلائی، اور خیر سے کام لے۔ کہ یہ حوادثات و مصیبتیں ایک مسلمان کے لئے آزمائش ہیں یا گناہوں کا کفارہ ہیں یا درجات کی بلندی کا ذریعہ ہیں۔ بس یہ چند گھڑیاں یا چند لمحات یا چند دن ہیں گزر جائیں گے، غم کے بادل چھٹ جائیں گے، پھر اللّٰه پاک برے حالات کو اچھے حالات سے بدل دے گا۔

قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:

اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا

ترجمہ: بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔ (1)

لہذا صبر کرو اور اللّٰه پاک سے دعا کرو۔ اسی ہی کی طرف رجوع کرو کہ وہ تم پر رحمت و کرم کے خزانے کھول دے گا۔ کیونکہ اللّٰه پاک فرماتا ہے:

وَ اصْبِرُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ

ترجمہ: اور صبر کرو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (2)

سب سے اعلیٰ اور افضل درجہ

کتنی بھی بڑی پریشانی آپڑے، بڑی سے بڑی مصیبت نازل ہو جاے۔ مگر اس کے چہرے سے محسوس ہی نہ ہو کہ یہ مصیبت زدہ ہے یا کسی مشکل میں ہے۔ یہ صبر کا سب سے اعلیٰ اور افضل درجہ ہے۔

صبر کا پھل

مصیبتوں و آزمائشوں پر صبر کرنے سے بہت سے دینی و دنیاوی فوائد ملتے ہیں۔ اگر فوائد کی بات کریں تو جیسا کہ اللّٰه پاک راضی ہو گا، اس کے پیارے رسول خاتم النبیین ﷺ کی سنت پر عمل ہوگا۔ جنت ملے گی، خود اعتمادی پیدا ہوگی، عزت میں اضافہ ہوگا، حوصلہ بڑھے گا۔ معاملات مزید خراب نہیں ہونگے، عقل سلامت رہے گی، نقصان سے بچ جائے گا، دوسروں کا اعتماد بڑھے گا۔ اللّٰہ پاک نے چاہا تو اس مصیبت و آزمائش کے بدلے اچھا بدلہ دنیا میں ہی مل جائے گا۔

صبر نہ کرنے کے نقصانات

لوگوں کی نظر میں مقام گر جاتا ہے، بندہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے۔ دوستوں کو گنوا دیتا ہے، رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، گناہوں میں پڑ جاتا ہے۔ لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں، اس طرح معاشرے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔

مندرجہ بالا کے علاوہ بھی صبر کرنے کے بہت سے فوائد ہیں اور صبر نہ کرنے کے بہت سے نقصانات ہیں۔ لہذا ہمیشہ صبر سے کام لیں کیونکہ صبر کرنے سے نقصان سے بچ جانا اور ہزاروں فوائد کا ملنا جنہیں ہم پھل کا نام دیتے ہیں یہ واقعی بہت میٹھے ہوتے ہیں۔

اللّٰه پاک ہمیں صبر و استقامت عطا فرمائے۔ آمین

4.5/5 - (4 votes)

حوالہ جات

حوالہ جات
1الم نشرح : 6
2الانفال : 46
مسئلہ فلسطین

اسرائیل اور فلسطین کی جنگ میں اہم موڑ

بھائی چارہ

بھائی چارہ اور اسکی اہمیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

شب معراج کی فضیلت اور نوافل

معجزات سیرت انبیاء علیہم السلام کا بہت ہی نمایاں اور روشن باب ہیں۔ ان کی حقانیت سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قانون الٰہی ہے اس نے جب بھی انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاء علیہم...

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)