نبی کریم ﷺ بلا شبہ اللّہ پاک کے سب سے پیارے اور سب سے زیادہ شان والے نبی ہیں۔ اللّہ پاک نے نبی کریم ﷺ کو وہ بلند و بالا مقام عطا فرمایا جو کسی اور کے حصے میں نہ آیا۔ رہتی دنیا تک آپ ﷺ کے ذکر کو بلند و بالا فرما دیا۔ اللّہ پاک نے آپ ﷺ کے ذریعے ساری دنیا میں اسلام کی جلوہ گری فرمائی ہر جانب لا الہ الا اللہ کی صدائیں بلند ہوئیں، کفر میں ڈوبے ہوئے علاقوں میں اللہ اکبر کی تکبیر بلند ہوئی۔
حضور ﷺ کی اپنی امت پر محبت و شفقت
نبی کریم ﷺ صرف اپنی امت ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ اور امت کے لئے تو اس قدر رحیم و شفیق آقا ہیں کہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ (1)
امت کی فکر
آپ ﷺ اپنی امت سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ امت کی فکر اس قدر تھی کہ تشریف لاتے وقت بھی اپنی امت کو یاد کیا پردہ فرماتے وقت بھی امتی امتی کے الفاظ آپ کے مبارک لبوں پر تھے۔ آپ ﷺ کی راتیں بارگاہ الٰہی میں سجدہ کرتے گزر جاتیں اپنی امت کے لیے مغفرت کا سوال کرتے رہتے۔
نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب اس آگ نے ارد گرد کی جگہ کو روشن کر دیا تو اس میں پتنگے اور حشرات الارض گرنے لگے ، وہ شخص ان کو آگ میں گرنے سے روکتا ہے اور وہ اس پر غالب آکر آگ میں دھڑادھڑ گر رہے ہیں، پس یہ میری مثال اور تمہاری مثال ہے، میں تمہاری کمر پکڑ کر تمہیں جہنم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ جہنم کے پاس سے ہٹ جاؤ! جہنم کے پاس سے ہٹ جاؤ! اور تم لوگ میری بات نہ مان کر جہنم میں گرے چلے جا رہے ہو ۔ (2)
بچوں پر شفقت کے بارے میں اسلامی تعلیمات
بچوں پر اس قدر شفقت و رحمت کہ اگر دوران نماز کوئی بچہ رو پڑتا تو اس خیال سے کہ اس کی ماں پر کیا بیت رہی ہو گی نماز کو مختصر فرما دیتے۔ غور تو کیجئے کہ کیسے نبی کریم ﷺ ایک بچے اور اس کی ماں کی خاطر اپنے رب سے جاری مناجات کے سلسلہ کو مختصر کر دیتے ہیں۔
ایک چڑیا کے بچے کو کوئی اٹھا لیتا ہے تو رسول رحمت ﷺ اس کی بھی دادرسی فرماتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ جانور جسے چھری کے ساتھ ذبح کیا جانا ہے اس پر وقت آخری بھی نرمی کرنے کا فرماتے ہیں۔ اس کے سامنے چھری تیز نہ کرنے اور تیز ترین چھری کے ساتھ ذبح کرنے کی تلقین فرماتے ہیں۔
اور تو اور وہ کفار ناہنجار جو پتھر مار مار کر لہولہان کر دیتے ہیں، اللہ کے فرشتے صرف ایک اشارہ ابرو کے منتظر ہوتے ہیں کہ اجازت ملے اور وہ قوم ملیا میٹ کر دی جائے۔ لیکن اللہ! اللہ! میرے رؤوف و رحیم آقا لہو لہان ہو کر بھی فرماتے ہیں کہ ”مجھے امید ہے کہ اللہ کریم ان کی آنے والی نسلوں سے ایسے لوگوں کو نکالے گا جو اللہ وحده لا شریک کی عبادت کریں گے اور شرک نہیں کریں گے۔“
ایک بار کسی نے کفار کے بارے میں بد دعا کرنے کا کہا تو فرمایا: “مجھے لعنت کرنے والا نہیں بھیجا گیا میں تو رحمت بنا کر بھیجا گیا۔”
اللّہ پاک ہمیں نبی کریم ﷺ کی سچی محبت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین