شب قدر کی فضیلت

شب قدر اور سو بازؤں والا فرشتہ

یوں تو رمضان شریف کی ساری راتیں ہی بابرکت ہیں اور ہر رات رحمت الٰہی برستی ہے۔ مگر اس ماہ مقدس کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پوشیدہ "لیلۃ القدر” کی تو کیا ہی بات ہے یہ رات انتہائی برکت والی ہے۔

اس مبارک رات کو لیلۃالقدر اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں سال بھر کے احکام نافذ کیے جاتے ہیں اور فرشتوں کو پورے سال کے ذمے داریاں سونپی جاتی ہیں اس رات کی دیگر تمام راتوں پر شرف و قدر حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے لیلۃالقدر کہا جاتا ہے۔

شب قدر کی فضیلت

اس رات کے بے شمار فضائل و برکات ہیں حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص شب قدر میں ایمان و اخلاص کے ساتھ رات کو عبادت کرے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ (1)

لیلۃ القدر رحمتوں والی، بھلائیوں والی، دعاؤں کی قبولیت اور بخشش والی رات ہے۔ اسی وجہ سے تو نبی کریم ﷺ اس رات کو پانے کے لئے رمضان شریف کے آخری عشرہ میں خوب عبادت کرتے اور راتوں کو جاگتے۔

آپ ﷺ شب قدر کو اللہ پاک کی خوب خوب عبادت کرتے، نوافل ادا کرتے قرآن پاک کی تلاوت، دعا و اذکار بھی فرماتے۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے پاس ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقتا محروم ہے۔ (2)

روایتوں میں آتا ہے”جب شب قدر آتی ہے تو اللّٰہ پاک کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک سبز جھنڈا لئے فرشتوں کی بہت بڑی فوج کے ساتھ زمین پر نزول فرماتے ہیں۔ ان فرشتوں کی تعداد زمین کی کنکریوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے، اور وہ سبز جھنڈا کعبہ معظمہ پر لہرا دیتے ہیں۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام کے سو بازو ہیں، جن میں سے دو بازو صرف اسی رات کھولتے ہیں، وہ بازو مشرق و مغرب میں پھیل جاتے ہیں۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ جو کوئی مسلمان آج رات قیام، نماز یا ذکر اللہ میں مشغول ہے اس سے سلام و مصافحہ کرو نیز ان کی دعاؤں پر آمین بھی کہو۔ چنانچہ صبح تک یہی سلسلہ رہتا ہے۔ صبح ہونے پر حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کو واپسی کا حکم دیتے ہیں۔

فرشتے عرض کرتے ہیں: اے جبرائیل علیہ السلام! اللہ پاک نے امت محمدیہ کی حاجتوں کے بارے میں کیا معاملہ فرمایا؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اللہ پاک نے ان لوگوں پر خصوصی نظر کرم فرمائی اور چار قسم کے لوگوں کے علاوہ سب کو معاف فرما دیا۔“ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:” یارسول اللہ ﷺ وہ چار قسم کے لوگ کون ہیں؟ ارشاد فرمایا:

(1) ایک تو عادی شرابی
(2) دوسرے والدین کے نافرمان
(3) تیسرے قطع رحمی کرنے والے (یعنی رشتے داروں سے تعلقات توڑنے والے) اور
(4) چوتھے وہ لوگ جو آپس میں عداوت رکھتے ہیں اور آپس میں قطع تعلق کرنے والے۔ (3)

شب قدر کی نشانیاں

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں شب قدر کے بارے میں سوال کیا تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں یا انتیسویں شب میں تلاش کرو۔ تو جو کوئی ایمان کے ساتھ بہ نیت ثواب اس مبارک رات میں عبادت کرے، اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔

اس کی علامات میں سے یہ ہے کہ وہ مبارک شب کھلی ہوئی، روشن اور بالکل صاف و شفاف ہوتی ہے۔ اس میں نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے نہ زیادہ سردی بلکہ یہ رات معتدل ہوتی ہے۔ گویا کہ اس میں چاند کھلا ہوا ہوتا ہے۔ اس پوری رات میں شیاطین کو آسمان کے ستارے نہیں مارے جاتے۔

مزید نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس رات کے گزرنے کے بعد جو صبح آتی ہے اُس میں سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے اور وہ ایسا ہوتا ہے گویا کہ چودھویں کا چاند۔ اللہ پاک اس دن طلوع آفتاب کے ساتھ شیطان کو نکلنے سے روک دیا ہے۔ (4)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں (یعنی اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں راتوں) میں تلاش کرو۔ (5)

شب قدر کی پوشیدگی کی حکمت

شب قدر کو امت مسلمہ سے مخفی (یعنی پویشدہ) رکھا گیا ہے لیکن اس کی بے شمار علامتیں نشانیاں بیان ہوئی ہیں احادیث مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں یا آخری رات میں سے چاہے وہ 30 ویں شب ہو کوئی ایک رات شب قدر ہے۔ اس مبارک رات کو مخفی رکھنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ مسلمان اس رات کی جستجو ( یعنی تلاش) میں ہر رات اللہ پاک کی عبادت میں گزارنے کی کوشش کریں کہ نہ جانے کون سی رات شبِ قدر ہو۔

شب قدر کے نوافل

حضرت اسماعیل حقی رحمہ اللہ علیہ ” تفسیر روح البیان میں یہ روایت نقل کرتے ہیں : جو شب قدر میں اِخلاص نیت سے نوافل پڑھے گا اُس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ (6)

جب رمضان شریف کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم ﷺ عبادت پر کمر باندھ لیتے، ان میں راتیں جاگا کرتے اور اپنے اہل کو جگایا کرتے۔ (7)

حضرت اسماعیل حقی رحمہ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ بزرگان دین رحمہ اللہ علیہم اس عشرے کی ہر رات میں دور کعت نفل شب قدر کی نیت سے پڑھا کرتے تھے۔ نیز بعض اکابر سے منقول ہے کہ جو ہر رات دس آیات اس نیت سے پڑھ لے تو اس کی برکت اور ثواب سے محروم نہ ہو گا۔

شب قدر کی دعا

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں: میں نے بارگاہ رسالت ﷺ میں عرض کی : ” یارسول اللہ ﷺ! اگر مجھے شب قدر کا علم ہو جائے تو کیا پڑھوں؟ فرمایا: اس طرح دُعا مانگو :

اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی

یعنی اے اللہ ! بیشک تو معاف فرمانے والا ہے اور معافی دینا پسند کرتا ہے لہذا مجھے معاف فرما دے۔ (8)

اللّٰہ پاک ہم کو بھی لیلۃ القدر کی برکتوں سے مالا مال کرے اور زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

5/5 - (1 vote)

حوالہ جات

حوالہ جات
1صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1781
2ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1644
3شعب الایمان، حدیث نمبر: 3695
4مسند امام احمد، حدیث نمبر: 22776،22829
5صحیح بخاری، حدیث نمبر:2017
6روح البیان ، 480/10
7ابن ماجه، حدیث نمبر: 1768
8ترمذی، حدیث نمبر: 3544
رمضان کا تیسرا عشرہ

رمضان کا تیسرا عشرہ اور شب قدر کی اہمیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

شب معراج کی فضیلت اور نوافل

معجزات سیرت انبیاء علیہم السلام کا بہت ہی نمایاں اور روشن باب ہیں۔ ان کی حقانیت سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قانون الٰہی ہے اس نے جب بھی انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاء علیہم...

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)