حضرت قدامہ بن حماطہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :”میں نے حضرت سہم بن منجاب رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ” ایک مرتبہ ہم حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ کے لئے ”دارین“ کی طر ف روانہ ہوئے۔ آپ مستجاب الدعوات تھے۔ آپ نے راستے میں تین دعائیں کیں اور تینوں مقبول ہوئیں۔
راستے میں ایک جگہ پانی بالکل ختم ہو گیا۔ ہم نے ایک جگہ قافلہ روکا۔ آپ نے وضو کے لئے پانی منگوایا اور وضو کرنے کے بعد دو رکعتیں ادا فرمائیں۔ پھر دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے اور بارگاہ خدا وندی عزوجل میں اس طر ح عرض گزار ہوئے :”اے ہمارے پروردگار عزوجل! ہم تیرے بندے ہیں۔ تیری راہ کے مسافر ہیں۔ ہم تیرے دشمنوں سے قتال کریں گے۔ اے ہمارے رحیم وکریم پروردگار! ہمیں بارانِ رحمت سے سیراب فرما دے تا کہ ہم وضو کریں اور اپنی پیاس بجھائیں۔“
اس کے بعد قافلے نے کوچ کیا۔ ابھی ہم نے تھوڑی سی مسافت ہی طے کی تھی کہ گھنگور گھٹائیں چھاگئیں اور یکایک بارانِ رحمت ہونے لگی۔ سب نے اپنے اپنے برتن بھر لئے اور پھر ہم وہاں سے آگے چل دیئے۔
بڑی عجیب بات
حضرت سہم بن منجاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:” تھوڑی دور چلنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میں اپنا برتن تو اسی جگہ بھول آیاہوں جہاں بارش ہوئی تھی۔ چنانچہ میں اپنے رفقاء کو بتا کراس طرف چل دیاجہاں بارش ہوئی تھی۔ جب میں وہاں پہنچا تویہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرانگی ہوئی کہ ابھی کچھ دیر پہلے جہاں شدید بارش کا سماں تھا اب وہاں بارش کے آثار تک نہ تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہاں کی زمین پر برسوں سے ایک قطرہ بھی نہیں برسا۔ بہر حال میں اپنے برتن کو لے کر واپس قافلے میں شامل ہو گیا۔
سمندر میں راستے
جب ہم ”دارین” پہنچے تو ہمارے اور دشمنوں کے درمیان ٹھاٹھیں مارتا سمند ر تھا۔ ہمارے پاس ایسا ساز و سامان نہ تھا کہ ہم سمندر پار کر سکیں۔ ہم بہت پریشان ہوئے اور معاملہ حضرت علاء بن حضرمی کی بارگاہ میں پیش کیا گیا۔ آپ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور ان کلمات کے ساتھ دعا کرنے لگے:
اے ہمارے پروردگار عزوجل! ہم تیرے بندے ہیں اور تیری راہ کے مسافر ہیں۔ ہم تیرے دشمنوں سے قتال کریں گے۔ اے ہمارے پروردگار عزوجل! ہمارے لئے ان کی طرف کوئی راستہ بنادے۔“’
آپ کی دعا قبول ہوئی اور ہمارے لئے سمندر میں راستے بن گئے۔ پھر آپ ہمیں لے کر سمندر میں اُتر گئے اور ہم نے اس طرح سمندر پار کیا کہ ہمارے کپڑ ے بھی گیلے نہ ہوئے۔
آپ کی وفات
جنگ کے بعد جب ہماری واپسی ہوئی تو راستے میں آپ کے پیٹ میں درد ہونے لگا اور اسی درد کی حالت میں آپ کا وصال ہوگیا۔ ہم نے آپ کو غسل دینا چاہا لیکن پانی بالکل ختم ہو گیا تھا۔ چنانچہ آپ کو بغیر نہلائے کفن دیا گیا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ کو دفن کر دیا گیا۔
آپ کی تدفین کے بعد ہم وہاں سے رخصت ہو گئے۔ ایک جگہ ہمارے قافلے کو پانی میسر آیا تو ہم نے باہم مشورہ کیا کہ آپ کو غسل دے کر دوبارہ دفن کیا جائے۔ چنا نچہ ہم اس جگہ پہنچے جہاں آپ کو دفن کیا تھا۔ لیکن وہاں آپ کی لاش موجود نہ تھی۔ خوب تلاش کیا لیکن آپ کا لاشہ مبارک نہ مل سکا۔ پھر ہمیں ایک شخص نے بتا یا کہ میں نے حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو وصال سے پہلے یہ دعا کرتے سنا تھا :
اے ہمارے پروردگار عزوجل! میری موت کو ان لوگوں پر پوشیدہ کر دینا اور میرے ستر کو کسی پر ظاہر نہ فرمانا۔
جب ہم نے یہ سنا تو ہم واپس لوٹ آئے اور ہم سمجھ گئے کہ آپ کی یہ دعا بھی قبول ہو چکی ہے۔ اسی لئے آپ کا جسم اطہرنہیں مل رہا۔
کان میں کنکری چلی گئی
حضرت عمر بن ثابت بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:” ایک مرتبہ بصرہ کے رہنے والے ایک شخص کے کان میں ایک کنکری چلی گئی۔ طبیبوں نے بہت علاج کیا مگر وہ نہ نکلی بلکہ مزید اندر چلی گئی اور دماغ تک جا پہنچی۔ اس شخص کا تکلیف کے مارے برا حال تھا۔ راتوں کی نیند اور دن کا آرام و سکون سب برباد ہو گیا۔ پھر بصرہ میں حضرت حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے رفقاء میں سے ایک شخص آیا۔ یہ غم کا مارا اس کے پاس پہنچا اور اپنا درد بیان کیا۔
حضرت حسن بصری کے رفیق نے کہا: ” تیرابھلا ہو۔ اگر تو چاہتا ہے کہ تیری تکلیف دور ہو جائے تو ان کلمات کے ساتھ اللہ پاک سے دعا کر جن کے ذریعے حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ دعا کرتے تھے۔ انہوں نے صحراؤں اور سمندروں میں ان کلمات سے دعا کی تو ان کی دعا مقبول ہوئی۔ پس تو بھی انہیں کلمات کے ذریعے دعا کر۔“ وہ شخص عرض گزار ہوا :”وہ کلمات کون سے ہیں؟“ اس نے بتایا:” وہ کلمات یہ ہیں:
جیسے ہی اس شخص نے ان کلمات کے ساتھ دعا کی فوراً اس کے کان سے وہ کنکری نکلی اور دیوار سے جا لگی اور اس شخص کو سکون نصیب ہو گیا۔
آپ کا نام و نسب
علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: ”حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کا اصل نام ”عبداللہ بن عماد بن اکبر بن ربیعہ بن مالک بن عوف حضرمی“ تھا۔
آپ نبی رسولِ اکرمﷺ کے صحابی تھے۔ حضورنبی رحمت ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ کو” بحری “ کا امیر بنا کر بھیجا ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بھی آپ بحرین کے امیر رہے اور حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بھی آپ کو بحرین کا امیر برقرار رکھا۔