سب سے بڑاعبادت گزار

سب سے بڑاعبادت گزار

حضرت سیدنا محمد بن معاویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں،ہمیں ہمارے شیخ نے بتایا:” ایک مرتبہ حضرت سیدنا یونس علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام کی آپس میں ملاقات ہوئی، حضرت سیدنا یونس علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت سیدنا جبریل علیہ السلام سے فرمایا: ”مجھے کسی ایسے شخص کے پاس لے چلو جو زمین میں سب سے بڑا عبادت گزار ہو ۔”

چنانچہ حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام آپ علیہ السلام کو ایک ایسے شخص کے پاس لے گئے جو جذام کا مریض تھا اور اس بیماری کی وجہ سے اس کے ہاتھ پاؤں گل سڑ کر جسم سے جدا ہوگئے تھے، اور وہ صابر وشاکر شخص کہہ رہا تھا:” اے میرے پاک پروردگار عزوجل!جب تک تو نے چاہا ان اعضاء سے مجھے فائدہ بخشا اور جب تو نے چاہالے لیا ، تیر ا شکر ہے کہ تو نے میری امید صرف اپنی ذات میں باقی رکھی ، اے میرے پروردگار عزوجل !میرا مطلوب تَو بس تُوہی تُو ہے (1)

اس شخص کو دیکھ کر حضرت سیدنا یونس علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت سیدنا جبریل امینعلیہ السلام سے فرمایا: ”اے جبریل علیہ السلام!میں نے تو تجھے ایسے شخص کے بارے میں کہا تھا جو بہت زیادہ نماز پڑھنے والا ہو او رخوب روزے رکھنے والا ہو۔” یہ سن کر جبریل امین علیہ السلام نے کہا:”ان مصیبتوں کے نازل ہونے سے پہلے یہ خوب روزے رکھتا اورخوب نمازیں پڑھتا تھا اور اب مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کی آنکھیں بھی لے لوں۔” یہ کہہ حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام نے اس شخص کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا تو اس کی دونوں آنکھیں باہر امنڈ آئیں۔

عابد پھروہی الفاظ دہرانے لگا: ”اے میرے مالک حقیقی عزوجل جب تک تو نے چاہا مجھے ان آنکھوں سے فائدہ بخشا اورجب چاہا لے لیا اور اپنی ذات میں میری محبت کو باقی رکھا(2) میرا مطلوب تو بس تو ہی توہے۔

یہ حالت دیکھ کر حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام نے اس عظیم صابر و شاکر شخص سے کہا:”آؤ، ہم سب مل کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل تجھے تیری آنکھیں ، اور ہاتھ پاؤں لوٹا دے اور تجھے اس بیماری سے شفاء عطا فرمائے تا کہ تم پہلے کی طرح عبادت کرو اور رو زے رکھو۔” وہ شخص کہنے لگا :”میں اس بات کو پسند نہیں کرتا۔”

حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا :” آخر کیوں تم اس بات کو پسند نہیں کرتے ؟”وہ عا بد بولا:اگر میرے رب عزوجل کی رضا اسی میں ہے کہ میں بیمار رہوں تو پھر مجھے تندرستی و صحت نہیں چاہے، میں تو اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی ہو ں ، وہ مجھے جس حال میں رکھے میں اسی میں راضی ہوں۔”

؎جے سوہنا میرے دکھ وچ راضی میں سکھ نوں چُلّھے پاواں

اس عابد کی یہ گفتگو سن کر حضرت سیدنا یونس علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا : ”اے جبریل علیہ السلام! واقعی میں نے آج تک اس سے بڑھ کر کوئی عبادت گزار شخص نہیں دیکھا۔ حضر ت سیدنا جبریل علیہ السلام نے کہا :”یہ ایسا عظیم راستہ ہے کہ رضائے الٰہی عزوجل کے حصول کے لئے اس سے افضل کوئی اور راستہ نہیں۔”

اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین

5/5 - (1 vote)

حوالہ جات

حوالہ جات
1یعنی میں تیری رضا پر راضی ہوں
2 اے مولیٰ تیرا شکر ہے
ایمان مفصل اور ایمان مجمل

ایمان مفصل اور ایمان مجمل

عظیم ماں کے عظیم بیٹے صبر کی انوکھی داستان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

شب معراج کی فضیلت اور نوافل

معجزات سیرت انبیاء علیہم السلام کا بہت ہی نمایاں اور روشن باب ہیں۔ ان کی حقانیت سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قانون الٰہی ہے اس نے جب بھی انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاء علیہم...

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)