جب مسلمان کے دل میں ایمان کا نور آجاتا ہے تو اس کو کوئی طاقت بھی اسلام سے نہیں ہٹا سکتی کہ یہ ایک روحانیت والا دین ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ و نظریہ حقیقی اور پختہ ہوتا ہے۔ مسلمان اپنے نبی محمد مصطفی ﷺ سے جان سے بھی بڑھ کر عشق و محبت کرتے ہیں۔ اور پھر صحابہ کرام، علماء کرام، اولیاء کرام سے بے حد عقیدت رکھتے ہیں۔
جب اسلام کی حقانیت کسی پر کھل جاتی ہے تو اس کی صداقت اور وفا کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وہ عرب کی قوم جس نے کبھی کسی کے آگے گردن نہیں جھکائی، تعصب و نسب کی وجہ سے جن میں خون ریزیاں جاری رہتی تھیں، اسلام قبول کرنے کے بعد وہ قوم صرف محمد مصطفی ﷺ کے نام پر گردنیں کٹانے والی ہو گئی۔
امت مسلمہ کی روح
خاتم النبیین ﷺ کے زمانے کے بعد ہر دور میں مسلمانوں کے دلوں کا مرکز علماء کرام رہے ہیں، وہ امت مسلمہ کی رہنمائی کرتے رہے ہیں، مشکلات حل کرتے رہے ہیں۔ جب بھی فتنہ و فساد اٹھا علماء کرام نے اسے ختم کیا، حتیٰ کہ حکمران بھی علماء کرام کے محتاج رہے ہیں۔ گویا کہ امت مسلمہ جسم ہے اور روح، دل و دماغ علماء کرام ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء کرام، دین کے علم کے ماہرین اصل میں انبیاء کرام کے وارث اور نائب ہیں۔ چونکہ علماء کرام امت کی روح اور کفر و باطل کے خلاف مضبوط ڈھال ہیں اسلئے باطل قوتوں نے مل کر یہ کھیل ترتیب دیا کہ مسلمانوں کی روح کو کمزور کیا جائے، ان کی روحانیت کو ختم کیا جائے۔
مسلمانوں کا علماء کرام سے تعلق کو ختم کیا جائے، علماء کرام سے اعتبار اور یقین اٹھایا جائے۔ اور اس کے لیے بڑے بڑے منصوبے ترتیب دیے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں تھا کہ ایک دم ہی مسلمانوں کے دلوں سے علماء کرام کی محبت ختم کردی جائے۔ بلکہ ان منصوبوں میں کامیابی کے لیے ان کو صدیاں لگیں ہیں۔
مسلمانوں کا ماحول
چونکہ مسلمانوں کا ماحول اس طرح کا ہوتا تھا کہ عام عوام میں جب بچہ پیدا ہوتا تو ماں باپ کی گود میں قرآن پڑھتا، سمجھ بوجھ کے زمانے میں قرآن و حدیث کا علم حاصل کرتا، پھر بڑا ہوتا تو کوئی پیشہ سیکھتا اور پھر حلال کمائی کرتا۔ رب کی عبادت کرتا، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرتا، اخلاق و آداب کے ساتھ زندگی گزارتا۔
جبکہ کچھ مسلمان علم کی فیلڈ میں ترقی کرتے تھے اور علماء کا مقام پاتے، اس وقت دینی اور دنیاوی دونوں علم ایک ہی ہوتے اور ایک ہی جگہ ہوتے تھے، ان کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا۔ علماء کرام عام عوام کے قائدین ہوتے تھے۔ معاشرہ با اخلاق، با کردار اور مثالی ہوا کرتا تھا۔
تو چند سالوں میں ایسے معاشرے کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ تو ایسے معاشرے کو بدلنے کے لیے اس سطح کے منصوبے ترتیب دیئے گئے جن کے تحت آہستہ آہستہ نسل در نسل باطل قوتوں نے مسلمانوں کو کمزور کیا اور علماء سے مسلمانوں کے تعلق کو ضرب لگائی۔
مسلمان کے درمیان تفریق
منافق لوگوں کو دینی لباس پہنایا اور مساجد و مدارس میں داخل کیا۔ ان منافق لوگوں نے قرآن و سنت کے خلاف عقیدے بناکر پھیلائے، غلط عقیدوں پر مشتمل کتابیں لکھیں۔ اگر چہ اس وقت ان کا رد کیا گیا، کافیوں کو سزائیں بھی دی گئیں۔ مگر وہ چیزیں ظاہر ہو گئیں۔
اس وقت تو عوام نے اس کو اتنا نہیں لیا لیکن جیسے جیسے دور گزرتا گیا وہ زیادہ عام ہوئیں، جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے کچھ نہ کچھ لینا شروع کیا۔ تو جتنا زمانہ طویل ہوتا گیا یہ فتنہ بڑھتا گیا۔
جس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ مسلمانوں میں فرقہ واریت پیدا ہو گئی، اصل کی طرف سے توجہ ہٹتی گئی، مسلمانوں کے اتحاد کی طاقت کمزور ہوتی گئی، جھگڑے بڑھتے گئے اور مسلمان علماء کرام سے دور ہوتے چلے گئے اور ابھی تک یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔
علم و علماء پر وار
پہلے دین اور دنیاوی علوم میں فرق نہیں ہوا کرتا تھا۔ دین بھی اور دنیا بھی ایک ہی مدرسے سے سیکھے جاتے تھے اور عالم دین ہی دنیاوی علوم سکھاتے تھے۔ علماء دین ہی بڑے بڑے سائنسدان، ڈاکٹر، انجنیئر، وغیرہ ہوا کرتے تھے۔
علماء اور دین کو نقصان پہنچانے کے لیے ان لوگوں نے مسلمانوں کے دلوں میں آہستہ آہستہ یہ بات بٹھانی شروع کی کہ دنیا مدرسوں میں نہیں بلکہ اسکول اور کالجوں میں سکھائی جاتی ہے۔ جن مسلمان ممالک پر ان کی قابض اور ناجائز حکومت تھی تو وہاں سرکاری سطح پر انہوں نے اسکولوں اور کالجوں کو عروج دیا اور مدرسوں سے لوگوں کو دور کرنا شروع کیا۔
چونکہ زندگی گزارنے کے لیے دنیاوی علوم و فنون کی ضرورت پیش آتی ہے اس لیے لوگ اس جال میں پھنسنے کی طرف مجبور ہو گئے۔ اس طرح سے بھی علم دین اور علماء سے مسلمانوں کے تعلق کو ضرب لگائی۔
دور ماڈرن تو فتنے بھی ماڈرن
زمانہ آہستہ آہستہ ترقی کرتا گیا اور نئی نئی ایجادات ہوتی گئیں، کیمرہ آیا، ٹی وی آیا، انٹرنیٹ ایجاد ہوا، آواز کی ریکارڈنگ شروع ہوئی۔ ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کرنا ایک ملک سے دوسرے ملک آسان ہو گیا، گویا کہ پوری دنیا ایک ہو گئی۔
باطل قوتوں کا اصل مرکز مغربی ممالک تھا جن کا پہلے حال یہ ہوتا تھا کہ سردرد کی وجہ سے سر پر جوتے مارتے تھے۔ ان کا حال جانوروں سے بھی بدتر تھا۔ ماں بہن کی تمییز نہیں تھی۔ مرد و عورت ننگے ہوتے تھے، زنا خوری عام تھی، اور اب بھی ان لوگوں کا حال یہ ہی ہے اور برے سے برا ہوتا جارہا ہے۔
ان لوگوں کا منصوبہ پہلے بھی یہی تھا اور اب بھی یہی ہے کہ جس طرح ہمارا ماحول ہے، مسلمانوں کا بھی ماحول اسی طرح بنانا ہے۔ اس لیے انہوں نے جدید ایجادات کا استعمال کرکے مسلمانوں میں اپنے گندے ماحول کو پھیلانا شروع کیا۔
گانے باجے ریکارڈ کر کے عام کیے، گندی اور ننگی فلمیں بنا کر دکھائیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ایک تعداد اس میں مبتلا ہو گئی، گانوں کے شوقین ہو گئے، فلموں ڈراموں کے عادی ہو گئے، گھروں کا ماحول خراب ہونے لگا، معاشرے بگڑتے چلے گئے، علماء کرام سے نفرتیں بڑھنا شروع ہوئیں۔
پھر موبائل اور سوشل میڈیا کا دور شروع ہوا۔ اب ان کی خرافات ہر شخص کی گھر میں بلکہ ہر ایک کے موبائل میں پہنچے ہوئے ہیں۔ تو اس طرح ان کا منصوبہ کامیاب سے کامیاب ہو رہا ہے اور اس وقت کیا کیا صورتحال ہے اس کا اندازہ آپ کو بخوبی ہو گا۔ اے مسلمانوں! خدارا اپنے آپ کو، اپنی اولادوں کو، اپنے گھر والوں کو ان فتنوں سے بچاؤ اور علماء کرام سے اپنے تعلقات کو مضبوط بناؤ۔