اللہ رب العالمین نے اپنی مخلوقات میں انسان کو اپنی قدرت کا شاہکار بنایا. پھر انسانوں میں صورت و علم و عقل وغیرہ کے اعتبار سے انبیاء کرام کو سب سے فائق بنایا۔ پھر ان کمال ہستیوں میں سے سب سے بڑھ کر عقل ،علم ،عمل وغیرہ میں بے مثال و باکمال ہمارے آخری نبی ﷺ کو بنایا۔
خبرنبی ﷺ اور سائنس
احادیث طیبہ کو سائنسی نظر سے دیکھا جائے تو کئی احادیث طیبہ میں ایسی چیزوں کا ذکر ہے۔ جن کو سائنس نے سیکڑوں سال بعد دریافت کیا ہے. لیکن اسلام کے ماننے والوں کو آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پہلے ہی بیان فرما گئے۔ ان میں سے دو حدیث مبارکہ بخاری شریف کی روشنی میں ذکر کرتا ہوں.
1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ پھر40 دن تک خون کے لوتھڑے کی صورت میں ہوتا ہے۔ پھر اتنی ہی مدت وہ گوشت کے ٹکڑے کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ ایک فرشتے کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے پس وہ اس کا عمل، اس کی موت، اس کا رزق اور شقاوت یا سعادت مند ہونا لکھ دیتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔(1)
آج سائنس سیکڑوں تحقیقات ہزاروں تجربات اور مشاھدات کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسان کی تخلیق ماں کے پیٹ میں اسی طرح ہوتی ہے۔
2۔ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی ایک کے مشروب میں مکھی گرجائے تو اسے غوطہ دے پھر اسے نکال پھینکے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری اور دوسرے میں شفا ہے۔ (جب یہ کسی مشروب میں گرتی ہے تواس میں اپنا بیماری والا پر پہلے داخل کرتی ہے۔ لہذا جب اسکے دوسرے پر کو بھی مشروب میں ڈبودیا جاۓ تواسکی بیماری ختم ہوجاتی ہے)(2)
سائنس کی کیا حیثیت علم مصطفٰے ﷺ کےسامنے
اس حقیقت کو بھی سائنس اپنی تحقیقات کے بعد آج ماننے پر مجبور ہو گئی ہے۔ جبکہ صدیوں پہلے ہمارے آخری نبی ﷺ اسکی خبر ارشاد فرما چکے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آج کی سائنس کئی چیزوں کی دریافت میں غلط نتائج پر پہنچی ہے۔ بہت مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ انکی تحقیقات اور نتائج بدلتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک بہت بڑی مثال سن 2012ء ہے۔ جس کے بارے میں سائنس نے کہا تھا کہ اس میں دنیا فنا ہو جائے گی۔ مگر کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔۔
لہذا ایک مسلمان کو چاہیے کہ کوئی بھی ایسا معاملہ جس میں ایک جانب عقل یا سائنس ہواور دوسری طرف خبر نبی علیہ السلام ہو تو “آمنَّا” کہہ کر خبر رسول علیہ السلام پر اپنا یقین برقرار رکھیں۔ کہ یہ یقینی بات ھے اور عقل و سائنس سے غلطی واقع ہوتی رہتی ہے۔