یہیں سے حضرت خالد بن ولید شام میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے اور اسی مینار پر حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے۔ یہ صدیوں سے قائم ہے اور قائم رہے گا۔ اسی شام میں چالیس ابدال ہر وقت رہتے ہیں۔ (1) یہی شام انبیاء کرام علیہم السلام کی سر زمین ہے۔ شام کو شام اس لیے کہتے ہیں کہ یہ حجاز مقدس کے دائیں طرف واقع ہے۔ یا اس لیے کہ یہاں سام بن نوح علیہ السلام آباد ہوئے۔ اہل عرب سام کہنے کو معیوب جانتے کیونکہ سام کا معنی زہریلا ہے تو شام کہنے لگے۔
یا شام کا معنی طیب ھے کیونکہ یہ پاکیزہ زمین ہے۔ شام کو آج کل سیریا کہا جاتا ھے اور سیریا لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ اسلامی اخوت کے فقدان کی وجہ سے شام کے کئی ٹکڑے ہوچکے ہیں۔ ورنہ موجودہ فلسطین، لبنان، اردن یہ سب شام کا حصہ ہے۔ شام کی زمین پر ہی محشر برپا ہو گا۔ امت کے لیے خرابی کا آغاز شام کی خرابی سے ہوگا ایسا حدیث پاک میں آیا ہے اور شام کے حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں۔ اھل شام اھل اللہ ہیں اور اکثریت صوفی مسلمان ہیں۔
حوالہ جات
1↑ | مشکوة المصابیح، حدیث نمبر 6277 |
---|