حضرت آدم علیہ السلام کا لقب ”خلیفۃ اللہ”ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی خلافت سے سرفراز فرمانے کا ارادہ فرمایا تو اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ اور فرشتوں میں جو مکالمہ ہوا وہ بہت ہی تعجب خیز ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی فکر انگیز و عبرت آموز بھی ہے، جو حسب ذیل ہے:
اللہ تعالیٰ:”اے فرشتو! میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں جو میرا نائب بن کر زمین میں میرے احکام کو نافذ کریگا۔
ملائکہ:اے باری تعالیٰ کیا تو زمین میں ایسے شخص کو اپنی خلافت و نیابت کے شرف سے سرفراز فرمائے گا جو زمین میں فساد برپا کریگا اور قتل و غارت گری سے خوں ریزی کا بازار گرم کریگا؟ اے خداوند تعالیٰ! اس شخص سے زیادہ تیری خلافت کے حق دار تو ہم ملائکہ کی جماعت ہے، کیونکہ ہم ملائکہ نہ زمین میں فساد پھیلائیں گے، نہ خوں ریزی کریں گے بلکہ ہم تیری حمد و ثناء کے ساتھ تیری سبوحیت کا اعلان اور تیری قدوسیت اور پاکی کا بیان کرتے رہتے ہیں اور تیری تسبیح و تقدیس سے ہر لحظہ و ہر آن رطب اللسان رہتے ہیں اس لئے ہم فرشتوں کی جماعت ہی میں سے کسی کے سرپر اپنی خلافت و نیابت کا تاج رکھ کر اس کو ”خلیفۃ اللہ”کے معزز لقب سے سربلند فرما۔
اللہ تعالیٰ:اے فرشتو!آدم (علیہ السلام)کے خلیفہ بنانے میں جو حکمتیں اور مصلحتیں ہیں ان کو میں ہی جانتا ہوں، تم گروہِ ملائکہ ان حکمتوں اور مصلحتوں کو نہیں جانتے۔
فرشتے باری تعالیٰ کے اس ارشاد کو سن کر اگرچہ خاموش ہوگئے مگر انہوں نے اپنے دل میں یہ خیال چھپائے رکھا کہ اللہ تعالیٰ خواہ کسی کو بھی اپنا خلیفہ بنا دے مگر وہ فضل و کمال میں ہم فرشتوں سے بڑھ کر نہ ہو گا۔ کیونکہ ہم ملائکہ فضیلت کی جس منزل پر ہیں وہاں تک کسی مخلوق کی بھی رسائی نہ ہو سکے گی۔ اس لئے فضیلت کے تاجدار بہرحال ہم فرشتوں کی جماعت ہی رہے گی۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرما کر تمام چھوٹی بڑی چیزوں کا علم ان کو عطا فرما دیا اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کا حسب ذیل مکالمہ ہوا۔
اللہ تعالیٰ:اے فرشتو! اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو کہ تم سے افضل کوئی دوسری مخلوق نہیں ہو سکتی تو تم تمام ان چیزوں کے نام بتاؤ جن کو میں نے تمہارے پیش نظر کر دیا ہے۔
ملائکہ:اے اللہ تعالیٰ!تو ہر نقص و عیب سے پاک ہے ہمیں تو بس اتنا ہی علم ہے جو تونے ہمیں عطا فرما دیا ہے اس کے سوا ہمیں اور کسی چیز کا کوئی علم نہیں ہے ہم بالیقین یہ جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ بلاشبہ علم و حکمت کا خالق و مالک تو صرف توہی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مخاطب فرما کر ارشاد فرمایا کہ اے آدم تم ان فرشتوں کو تمام چیزوں کے نام بتاؤ۔ تو حضرت آدم علیہ السلام نے تمام اشیاء کے نام اور ان کی حکمتوں کا علم فرشتوں کو بتا دیا جس کو سن کر فرشتے متعجب و محو حیرت ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ:اے فرشتو! کیا میں نے تم سے یہ نہیں فرما دیا تھا کہ میں آسمان و زمین کی چھپی ہوئی تمام چیزوں کو جانتا ہوں اور تم جو علانیہ یہ کہتے تھے کہ آدم فساد برپا کریں گے اس کو بھی میں جانتا ہوں اور تم جو خیالات اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے کہ کوئی مخلوق تم سے بڑھ کر افضل نہیں پیدا ہو گی، میں تمہارے دلوں میں چھپے ہوئے ان خیالات کو بھی جانتا ہوں۔
پھر حضرت آدم علیہ السلام کے فضل و کمال کے اظہار و اعلان کے لئے اور فرشتوں سے ان کی عظمت و فضیلت کا اعتراف کرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سب فرشتوں کو حکم فرمایا کہ تم سب حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو چنانچہ سب فرشتوں نے آپ کو سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ سے انکار کردیا اور تکبر کیا تو کافر ہو کر مردودِ بارگاہ ہو گیا۔
اس پورے مضمون کو قرآن مجید نے اپنے معجزانہ طرزِ بیان میں اس طرح ذکر فرمایا ہے:
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور یاد کروجب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ بولے کیا ایسے کو نائب کریگا جو اس میں فساد پھیلائے اور خون ریزیاں کرے اور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تونے ہمیں سکھایا۔ بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔ فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب اشیاء کے نام جب آدم نے انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافرہو گیا۔
درسِ ہدایت:۔ان آیاتِ کریمہ سے مندرجہ ذیل ہدایت کے اسباق ملتے ہیں۔
(۱)اللہ تعالیٰ کی شان
ہے۔یعنی وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے نہ کوئی اس کے ارادہ میں دخل انداز ہو سکتا ہے نہ کسی کی مجال ہے کہ اس کے کسی کام میں چون و چرا کرسکے۔ مگر اس کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق و خلافت کے بارے میں خداوند قدوس نے ملائکہ کی جماعت سے مشورہ فرمایا۔ اس میں یہ ہدایت کا سبق ہے کہ باری تعالیٰ جو سب سے زیادہ علم و قدرت والا ہے اور فاعل مختار ہے جب وہ اپنے ملائکہ سے مشورہ فرماتا ہے تو بندے جن کا علم اور اقتدار و اختیار بہت ہی کم ہے تو انہیں بھی چاہے کہ وہ جس کسی کام کا ارادہ کریں تو اپنے مخلص دوستوں، اور صاحبان عقل ہمدردوں سے اپنے کام کے بارے میں مشورہ کرلیا کریں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا مقدس دستور ہے۔
(۲)فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں یہ کہا کہ وہ فسادی اور خوں ریز ہیں۔ لہٰذا ان کو خلافتِ الٰہیہ سے سرفراز کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ہم فرشتوں کو خلافت کا شرف بخشا جائے۔ کیونکہ ہم ملائکہ خدا کی تسبیح و تقدیس اور اس کی حمد و ثناء کو اپنا شعار زندگی بنائے ہوئے ہیں لہٰذا ہم ملائکہ حضرت آدم علیہ السلام سے زیادہ خلافت کے مستحق ہیں۔
فرشتوں نے اپنی یہ رائے اس بناء پر دی تھی کہ انہوں نے اپنے اجتہاد سے یہ سمجھ لیا کہ پیدا ہونے والے خلیفہ میں تین قوتیں باری تعالیٰ ودیعت فرمائے گا، ایک قوت شہویہ، دوسری قوت غضبیہ، تیسری قوت عقلیہ اور چونکہ قوت شہویہ اور قوت غضبیہ ان دونوں سے لوٹ مار اور قتل و غارت وغیرہ قسم قسم کے فسادات رونما ہوں گے، اس لئے فرشتوں نے باری تعالیٰ کے جواب میں یہ عرض کیا کہ اے خداوند تعالیٰ!کیا تو ایسی مخلوق کو اپنی خلافت سے سرفراز فرمائے گا جو زمین میں قسم قسم کے فساد برپا کریگا اور قتل و غارت گری سے زمین میں خوں ریزی کا طوفان لائے گا۔ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ تو ہم فرشتوں میں سے کسی کو اپنا خلیفہ بنا دے۔ کیونکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح پڑھتے ہیں اور تیری تقدیس اور پاکی کا چرچا کرتے رہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر فرشتوں کو خاموش کردیا کہ میں جس مخلوق کو خلیفہ بنا رہا ہوں اس میں جو جو مصلحتیں اور جیسی جیسی حکمتیں ہیں ان کو بس میں ہی جانتا ہوں تم فرشتوں کو ان حکمتوں اور مصلحتوں کا علم نہیں ہے۔
وہ مصلحتیں اور حکمتیں کیا تھیں؟ اس کا پورا پورا علم تو صرف عالم الغیوب ہی کو ہے۔ مگر ظاہری طور پر ایک حکمت اور مصلحت یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کے بدن میں قوت شہویہ و قوت غضبیہ کو فساد و خوں ریزی کا منبع اور سرچشمہ سمجھ کر ان کو خلافت کا اہل نہیں سمجھا۔ مگر فرشتوں کی نظر اس پر نہیں پڑی کہ حضرت آدم علیہ السلام میں قوت شہویہ اور قوت غضبیہ کے ساتھ ساتھ قوت عقلیہ بھی ہے اور قوت عقلیہ کی یہ شان ہے کہ اگر وہ غالب ہوکر قوت شہویہ اور قوت غضبیہ کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا لے تو قوت شہویہ و قوت غضبیہ بجائے فساد و خوں ریزی کے ہر خیر و خوبی کا منبع اور ہر قسم کی صلاح و فلاح کا سرچشمہ بن جایا کرتی ہیں، یہ نکتہ فرشتوں کی نگاہ سے اوجھل رہ گیا۔ اسی لئے باری تعالیٰ نے فرشتوں کے جواب میں فرمایا کہ میں جو جانتا ہوں اس کو تم نہیں جانتے اور فرشتے یہ سن کر خاموش ہو گئے۔
اس سے یہ ہدایت کا سبق ملتا ہے کہ چونکہ بندے خداوند قدوس کے افعال اور اس کے کاموں کی مصلحتیں اور حکمتوں سے کماحقہ واقف نہیں ہیں اس لئے بندوں پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی فعل پر تنقید و تبصرہ سے اپنی زبان کو روکے رہیں۔ اور اپنی کم عقلی و کوتاہ فہمی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ایمان رکھیں اور زبان سے اعلان کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کیا اور جیسا بھی کیا بہرحال وہی حق ہے اور اللہ تعالیٰ ہی اپنے کاموں کی حکمتوں اور مصلحتوں کو خوب جانتا ہے جن کا ہم بندوں کو علم نہیں ہے۔
(۳)اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے ناموں، اور ان کی حکمتوں کا علم بذریعہ الہام ایک لمحہ میں عطا فرما دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم کا حصول کتابوں کے سبقاً سبقاً پڑھنے ہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جس بندے پر اپنا فضل فرما دے اس کو بغیر سبق پڑھنے اور بغیر کسی کتاب کے بذریعہ الہام چند لمحوں میں علم حاصل کرا دیتا ہے اور بغیر تحصیل علم کے اس کا سینہ علم و عرفان کا خزینہ بن جایا کرتا ہے۔ چنانچہ بہت سے اولیاء کرام کے بارے میں معتبر روایات سے ثابت ہے کہ انہوں نے کبھی کسی مدرسہ میں قدم نہیں رکھا۔ نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا نہ کبھی کسی کتاب کو ہاتھ لگایا، مگر شیخ کامل کی باطنی توجہ اور فضل ربی کی بدولت چند منٹوں بلکہ چند سیکنڈوں میں الہام کے ذریعے وہ تمام علوم و معارف کے جامع کمالات بن گئے اور ان بزرگوں کے علمی تبحر اور عالمانہ مہارت کا یہ عالم ہو گیا کہ بڑے بڑے درسگاہی مولوی جو علوم و معارف کے پہاڑ شمار کئے جاتے تھے ان بزرگوں کے سامنے طفل مکتب نظر آنے لگے۔
(۴)ان واقعات سے معلوم ہوا کہ خدا کی نیابت اور خلافت کا دارو مدار کثرتِ عبادت اور تسبیح و تقدیس نہیں ہے بلکہ اس کا دارومدار علوم و معارف کی کثرت پر ہے۔ چنانچہ حضرات ملائکہ علیہم السلام باوجود کثرت عبادت اور تسبیح و تقدیس ”خلیفۃ اللہ”کے لقب سے سرفراز نہیں کئے گئے اور حضرت آدم علیہ السلام علوم و معارف کی کثرت کی بناء پر خلافت کے شرف سے ممتاز بنا دیئے گئے جس پر قرآن مجید کی آیات کریمہ شاہد عدل ہیں۔
(۵)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علوم کی کثرت کو عبادت کی کثرت پر فضیلت حاصل ہے اور ایک عالم کا درجہ ایک عابد سے بہت زیادہ بلند تر ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے علمی فضل و کمال اور بلند درجات کے اظہار و اعلان کے لئے اور ملائکہ سے اس کا اعتراف کرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو حکم فرمایا کہ تمام فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کے روبرو سجدہ کریں۔ چنانچہ تمام ملائکہ نے حکم الٰہی کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت آدم کو سجدہ کرلیا اور وہ اس کی بدولت تقرب الی اللہ اور محبوبیت خداوندی کی منزل بلند پر فائز ہو گئے اور ابلیس چونکہ اپنے تکبر کی منحوسیت میں گرفتار ہو کر اس سجدہ سے انکار کر بیٹھا تو وہ مردود ِ بارگاہ الٰہی ہو کر ذلت و گمراہی کے ایسے عمیق غار میں گر پڑا کہ قیامت تک وہ اس غار سے نہیں نکل سکتا اور ہمیشہ ہمیشہ وہ دونوں جہان کی لعنتوں کا حق دار بن گیا اور قہر قہار و غضب جبار میں گرفتار ہو کر دائمی عذاب ِ نار کا سزاوار بن گیا۔
(۶)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کے علم کو جانچنے اور علم کی قلت و کثرت کا اندازہ لگانے کے لئے امتحان کا طریقہ جو آج کل رائج ہے یہ اللہ تعالیٰ کی سنت قدیمہ ہے کہ خداوند ِ عالم نے فرشتوں کے علم کو کم اور حضرت آدم علیہ السلام کے علم کو زائد ظاہر کرنے کے لئے فرشتوں اور حضرت آدم علیہ السلام کا امتحان لیا۔ تو فرشتے اس امتحان میں ناکام رہ گئے اور حضرت آدم علیہ السلام کامیاب ہو گئے۔
(۷)ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کو خاک کا پُتلا کہہ کر ان کی تحقیر کی اور اپنے کو آتشی مخلوق کہہ کر اپنی بڑائی اور تکبر کا اظہار کیا اور سجدہ آدم علیہ السلام سے انکار کیا ،درحقیقت شیطان کے اس انکار کا باعث اس کا تکبر تھا اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ تکبر وہ بری شے ہے کہ بڑے سے بڑے بلند مراتب و درجات والے کو ذلت کے عذاب میں گرفتار کردیتی ہے بلکہ بعض اوقات تکبر کفر تک پہنچا دیتا ہے اور تکبر کے ساتھ ساتھ جب محبوبانِ بارگاہ الٰہی کی توہین اور تحقیر کا بھی جذبہ ہو تو پھر تو اس کی شناعت و خباثت اور بے پناہ منحوسیت کا کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا اور اس کے ابلیس لعین ہونے میں کوئی شک و شبہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اس لئے ان لوگوں کو عبرت آموز سبق لینا چاہے جو بزرگان دین کی توہین کر کے اپنی عبادتوں پر اظہار تکبر کرتے رہتے ہیں کہ وہ اس دور میں ابلیس کہلانے کے مستحق نہیں تو پھر کیا ہیں؟ واللہ تعالیٰ اعلم۔