حقوق العباد کی اہمیت قرآن و سنت کی روشنی میں

معاشرے کا چین، سکون، امن، محبت و پیار اور معاشرے کی تعمیر و ترقی، فلاح و بہبود معاشرے میں رہنے والے افراد پر منحصر ہے۔ اور ہر ہر فرد پر کچھ ذمے داریاں ہیں اگر وہ ان ذمے داریوں کو صحیح طریقے سے ادا کرے گا تو معاشرہ ان اوصاف سے متصف ہو گا۔ ان ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں حقوق العباد کا علم ہونا ضروری ہے۔ مطلب ہر ایک شخص پر دوسرے کے لیے ایک قسم کی ذمے داری۔
حقوق العباد کی تعریف
یعنی حقوق “حق” کی جمع ہے، جس کا معنی ہے “ضروری حصہ” اور حقوق العباد کا مطلب ہے مسلمانوں کے وہ تمام کام اور معاملات جن کا اہتمام کرنا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے۔
حقوق العباد سے کیا مراد ہے؟
بندوں کے حقوق میں بنیادی بات یہ ہے کہ دوسروں کو تکلیف سے بچانا اور سہولت و راحت پہنچانا ہے۔ اس کے تحت یہ باتیں آئینگی کہ اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچانا، بدکلامی اور بدگمانی سے بچنا، کسی کا عیب نہ بیان کرنا، کسی پر الزام نہ لگانا، تلخ کلامی سے بچنا، نرمی و پیار و محبت سے گفتگو کرنا، مسکراہٹیں بکھیرنا۔
جو اپنے لئے پسند ہو وہی دوسروں کے لئے پسند کرنا، دوسروں کو اپنے شر سے بچانا، ان کے لئے باعثِ خیر بننا، استاد کا ادب کرنا، شاگردوں پر مہربانی کرنا، بڑوں کی عزت کرنا، چھوٹوں پر شفقت کرنا، اولاد کی اچھی تربیت کرنا اور اس کے علاوہ دیگر کئی حقوق ہیں۔
حقوق العباد کی اہمیت
حقوق العباد کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ حقوق العباد کی ادائیگی میں غفلت برتنے سے یا ادا نہ کرنے سے دنیا میں معاشرے کا امن و سکون برباد ہو جاتا ہے۔ پورا معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے جس طرح اس وقت کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ کہ چوری، ڈکیتی، ظلم و ستم، ناجائز قبضہ، مار پیٹ، لڑائی جھگڑے وغیرہ یہ ساری چیزیں صرف ایک دوسرے کا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ ایک حق مارتا ہے تو دوسرا بدلہ لیتا ہے۔ ان کو دیکھ کر دوسرے بھی شروع ہو جاتے ہیں۔
اگر سارے لوگ ایک دوسرے کا حق ادا کرتے تو نہ پولیس کی حاجت رہتی، نہ کورٹ کی۔ ہر بندے کا حق اس کو اِسی دنیا میں ہی ادا کرنا آخرت میں ادا کرنے کی نسبت بہت آسان ہے۔ کیونکہ اگر کسی کی حق تلفی کی اور حق معاف کروائے بغیر اس دنیا سے چلے گئے تو کسی کو تکلیف دینے، مارنے، ظلم کرنے، پیسے دبانے، گالی بکنے، گھورنے، جھڑکنے، الجھنے یا کسی بھی قسم کی حق تلفی کی صورت میں ساری زندگی کی نیکیوں سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ صاحب حق کے گناہ بھی سر ڈالے جا سکتے ہیں۔
حقوق العباد قرآن کی روشنی میں
اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو (بھی دو) (1)بنی اسرائیل، 26
ترجمہ : اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اور پاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) (2)النسآء، 36
حقوق العباد پر احادیث
ایک دفعہ رسول اللّٰه ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جسے پسند ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی کی جائے اور اس کی عمر دراز کی جائے تو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ (3)بخاری، 5985
حضور اکرم ﷺ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کہ مسلمان کی سب چیزیں اس کا مال، اس کی آبرو اور اس کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہیں، اور آدمی کے برے ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ (4)ابوداؤد، 4882
نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپ نے شہادت اور درمیانی انگلیوں کے اشارہ سے (قرب کو) بتایا۔ (5)بخاری، 6005
حضرت سعید بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کہ جس نے کسی کی زمین ظلماً چھینی اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ (6)بخاری، 2452
حقوق العباد کی اقسام
حقوق العباد کی قسم میں والدین، اولاد، میاں بیوی، رشتہ دار، یتیم، محتاج، پڑوسی، مسکین، مسافر، اجنبی، دوست، دشمن، سیٹھ، نوکر، قیدی، استاد، شاگرد، اور ان کے علاوہ دیگر کئی افراد شامل ہے۔
- والدین کے ساتھ احسان یہ ہے کہ والدین کا ادب کرے، اطاعت کرے، نافرمانی سے بچے، ہر وقت ان کی خدمت کے لئے تیار رہے، اپنی قدرت کے مطابق ان پر خرچ کرنے میں کمی نہ کرے۔ وغیرہ
- رشتہ داروں سے حسن سلوک یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے، قطع تعلقی سے بچے۔
- یتیم کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ ان کی پرورش کرے، نرمی سے پیش آئے، سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرے۔
- مسکین سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کی امداد کرے، انہیں خالی ہاتھ نہ لوٹائے۔
- پاس بیٹھنے والے جیسے رفیقِ سفر، ساتھ پڑھنے والا یا مجلس و مسجد میں برابر بیٹھنے والا حتّٰی کہ لمحہ بھر کے لئے بھی جو پاس بیٹھے اس کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا حکم ہے۔
- مسافر کی حاجت پوری کی جائے ، راستہ پوچھے تو رہنمائی کی جائے اور مہمان کی خوش دلی سے خدمت کی جائے۔
اسی طرح ہر ہر شخص کے مختلف حقوق ہیں۔ جو کہ ایک بہت تفصیلی موضوع ہے۔ اللّٰہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حوالہ جات