حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے والد کا نام “عمران“ اور ماں کا نام “حنہ“ تھا۔ جب بی بی مریم اپنی ماں کے شکم میں تھیں اس وقت ان کی ماں نے یہ منت مان لی تھی کہ جو بچہ پیدا ہو گا میں اس کو بیت المقدس کی خدمت کے لئے آزاد کر دوں گی۔ چنانچہ جب حضرت مریم پیدا ہوئیں تو حضرت حنہ نے اپنی بیٹی کے پیدا ہوتے ہی انہیں ایک کپڑے میں لپیٹا اور بیت المقدّس میں لے گئیں۔
جہاں چار ہزار خدام رہتے تھے اور ان کے سردار 27 یا 70 تھے جن کے امیر حضرت زکریا علیہ السلام تھے۔طجو حضرت مریم کے خالو تھے۔ چنانچہ بی بی مریم کے والد محترم حضرت عمران بنی اسرائیل کے امام تھے۔ اس لیے ان 70 میں سے ہر ایک نے حضرت مریم کے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ ان کی خدمت کا شرف مجھے حاصل ہو۔
حضرت زکرِیا علیہ السلام نے فرمایا کہ ان کا زیادہ مستحق میں ہوں۔ کیونکہ ان کی خالہ میرے نکاح میں ہیں۔ وہ علمائے یہود جو کہ وہاں کے خدام کے سردار تھے بولے کہ اگر رشتے داری کی بنا پر یہ حق ملتا تو ان کی امی جان کو ملتا۔ اب فیصلہ یہ ہے کہ قرعہ ڈالا جائے۔ جن کے نام پر قرعہ نکلے وہ انہیں حاصل کرے۔
حضرت مریم کی کفالت
یہ سب حضرات نہر اردن کی طرف اپنے وہ قلم لے کر چلے جس سے وحی(1) لکھتے تھے اور طے یہ ہوا کہ جس کا قلم پانی میں نہ ڈوبے، نہ بہ جائے وہ حضرت مریم کو لے اور جس کا قلم ڈوب جائے یا بہ جائے وہ ان کامستحق نہیں۔ چنانچِہ ایسا ہی کیا گیا۔ سب کے قلم ڈوب گئے یا بہ گئے مگرحضرت زکرِیا علیہ السلام کا قلم پانی میں ٹھہرا رہا لہٰذا حضرت مریم کی پرورش انہیں کے سپرد ہوئی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ تین بار قرعہ ڈالا گیا اور ہر بار ایسا ہی ہوا۔
چنانچہ حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم کو اپنی کفالت اور پرورش میں لے لیا اور بیت المقدس کی اوپر کی منزل میں تمام منزلوں سے الگ ایک محراب بنا کر حضرت مریم رضی اللہ عنہا کو اس محراب میں ٹھہرایا۔ جس کا دروازہ بیچ بیت المقدس کے تھا۔ جہاں سیڑھی کے ذریعے پہنچ سکتے تھے۔ حضرت زکرِیا علیہ السلام کے علاوہ وہاں کوئی نہ جاتا تھا۔ (2)
حضرت مریم رضی اللہ عنہا کی عبادت
چنانچہ حضرت مریم اس محراب میں اکیلی خدا کی عبادت میں مصروف رہنے لگیں اور حضرت زکریا علیہ السلام صبح و شام محراب میں ان کی خبر گیری اور خورد و نوش کا انتظام کرنے کے لئے آتے جاتے رہے۔ چند ہی دنوں میں حضرت مریم کی محراب کے اندر یہ کرامت نمودار ہوئی کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام محراب میں جاتے تو وہاں سردیوں کے پھل گرمی میں اور گرمی کے پھل سردیوں میں پاتے۔
حضرت زکریا علیہ السلام حیران ہو کر پوچھتے کہ اے مریم یہ پھل کہاں سے تمہارے پاس آتے ہیں؟ تو حضرت مریم یہ جواب دیتیں کہ یہ پھل اللہ کی طرف سے آتے ہیں اور اللہ جس کو چاہتا ہے بلا حساب روزی عطا فرماتا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کو خداوند قدوس نے نبوت کے شرف سے نوازا تھا مگر ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی اور وہ بالکل ضعیف ہوچکے تھے۔
برسوں سے ان کے دل میں فرزند کی تمنا موجزن تھی اور بارہا انہوں نے گڑ گڑا کر خدا سے اولاد نرینہ کے لئے دعا بھی مانگی تھی. مگر خدا کی شان بے نیازی کہ اس کے باوجود اب تک ان کو کوئی فرزند نہیں ملا۔ جب انہوں نے حضرت مریم کی محراب میں یہ کرامت دیکھی کہ اس جگہ بے موسم کا پھل آتا ہے تو اس وقت ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ میری عمر اب اتنی ضعیفی کی ہو چکی ہے کہ اولاد کے پھل کا موسم ختم ہو چکا ہے۔
اولاد کا پھل
مگر وہ اللہ جو حضرت مریم کی محراب میں بے موسم کے پھل عطا فرماتا ہے وہ قادر ہے کہ مجھے بھی بے موسم کی اولاد کا پھل عطا فرما دے۔ چنانچہ آپ نے محراب مریم میں دعا مانگی اور آپ کی دعا مقبول ہو گئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں آپ کو ایک فرزند عطا فرمایا جن کا نام خود خداوند عالم نے “یحییٰ“ رکھا اور اللہ پاک نے ان کو نبوت کا شرف بھی عطا فرمایا۔
قرآن مجید میں خداوند قدوس نے اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا:۔
ترجمہ:۔جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا بولیں وہ اللہ کے پاس سے ہے بے شک اللہ جسے چاہے بے گنتی دے یہاں پکارا زکریا اپنے رب کو بولا اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بے شک تو ہی ہے دعا سننے والا، تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بے شک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحیی کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کریگا اور سردار اور ہمیشہ کے لئے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(3)