نبی کریم ﷺ اپنے غلاموں کے ساتھ بہت اچھا سلوک فرماتے تھے اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے تھے۔ زید بن حارثہ جو کہ حضرت خدیجہ کے غلام تھے، حضرت خدیجہ نے زید رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں تحفہ کے طور پر پیش کیا تھا۔ چنانچہ زید رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں زندگی گزارنے لگے۔ نبی دو جہاں نہایت کریمانہ اخلاق کے ساتھ ان سے پیش آتے اور بہت اچھا برتاؤ کرتے تھے۔
ایک مرتبہ زید بن حارثہ کے قبیلے والے موسم حج میں حج کیلئے مکہ آئے انہوں نے مکہ میں زید بن حارثہ کو دیکھ لیا اور دیکھتے ہی پہچان لیا۔ چنانچہ زید نے ان کو پیغام کے طور پر چند شعر سنائے جس میں اپنی خوش میشی کا تذکرہ تھا اشعار سنانے کے بعد کہا کہ میرے گھر والوں کو پہنچا دینا۔ جب قبیلہ والے واپس آئے تو انہوں نے زید کے باپ کو اور اس کے بھائی کو سارا قصہ سنایا تو وہ زید کو لینے کیلئے مکہ آئے۔
جب مکہ آئے تو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ اے ابن عبدالمطلب اے ابن ہاشم اور اے اپنی قوم کے سردار ہمارے ساتھ زید کے بارے میں نرمی کریں اور ہم پر احسان کریں اور زید کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس بارے میں زید بن حارثہ کو اختیار دیتا ہوں۔ اگر وہ آپ لوگوں کے ساتھ جانا چاہے تو آپ بے شک لے جائیں لیکن اگر وہ مجھے اختیار کرے تو میں اس کو چھوڑ نہیں سکتا۔
وہ دونوں اس فیصلہ سے بہت خوش ہوئے چنانچہ زید بن حارثہ کو بلایا گیا اور نبی کریم ﷺ نے زید کو اختیار دیا۔ تو زید بن حارثہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میں ان دونوں کے بجائے آپکو اختیار کرتا ہوں آپ میرے لیے بمنزلہ والد کے ہیں اور بمنزلہ چچا کے بھی ہیں۔ اس پر زید کے والد نے کہا کہ تم غلامی کو آزدی پر ترجیح دیتے ہو اور اپنے باپ پر غیروں کو ترجیح دیتے ہو۔۔!! اور ان کو عار دلائی تو زید بن حارثہ نے جواب دیا کہ ہاں میں اب نبی کریم ﷺ کو نہیں چھوڑ سکتا۔