حضرت ابو بکر صدیق

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے (1) اور اسلام کے پہلے خلیفہ راشد ہیں اور آپ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ آپ خاتم النبین محمد مصطفی ﷺ کے پہلے جانشین، صحابی اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔آپ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتراور صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر ہیں۔

حضرت ابو بکر صدیق کا تعارف

آپ کا اسلامی نام عبد اللہ کنیت ابو بکر اور لقب صدیق ہے۔ آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ہے، والدہ کا نام سلمیٰ اور اور کنیت ام الخیر ہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو تمیم سے ہے۔ آپ کی پیدائش عام الفیل سے دو سال چھ ماہ بعد اور ہجرت نبوی سے پچاس سال چھ ماہ پہلے بمطابق 573عیسوی مکہ میں ہوئی۔آپ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ سے دو سال چھ ماہ چھوٹے تھے۔

حضرت ابو بکر کے حالات زندگی

آ پ رضی اللہ عنہ نے زمانۂ جاہلیت میں کبھی شراب نہیں پی اور نہ آپ رضی اللہ عنہ نے کبھی بُت پرستی کی ۔ آپ رضی اللہ عنہ ہمیشہ اِس کے خلاف رہے یہاں تک کہ آپ کی عمر جب چند برس کی ہوئی تو اسی زمانہ میں آپ رضی اللہ عنہ نے بت شکنی فرمائی۔

اس کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ماجد حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ (2) زمانہ جاہلیت میں انہیں بت خانہ لے گئے اور بتوں کو دکھا کر اِن سے کہا :”یہ تمہارے بلند و بالا خدا ہیں انہیں سجدہ کرو، وہ تو یہ کہہ کر باہر چلے گئے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ قضائے مبرم کی طرح بت کے سامنے تشریف لائے اور بتوں اور بت پرستوں کا عجز ظاہر کرنے کے لیے ارشاد فرمایا : میں بھوکا ہوں مجھے کھانے دے ۔

وہ کچھ نہ بولا فرمایا: میں ننگا ہوں مجھے کپڑا پہنا، وہ کچھ نہ بولا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک پتھر ہاتھ میں لے کر فرمایا :میں تجھ پر پتھر مارتاہوں اگر تو خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا، وہ اب بھی نرابت بنارہا ۔ آخر آپ رضی اللہ عنہ نے بقوت صدیقی اس کو پتھر مارا تو وہ خدائے گمراہاں منہ کے بل گر پڑا ۔ اسی وقت آپ رضی اللہ عنہ کے والد ماجد واپس آرہے تھے ۔

یہ ماجرا دیکھ کر فرمایا کہ ’’اے میرے بچے تم نے یہ کیا کیا…؟‘‘ فرمایا:کہ’’وہی کیا جو آپ دیکھ رہے ہیں‘‘آپ رضی اللہ عنہ کے والد انہیں ان کی والدہ حضرت ام الخیر رضی اللہ عنہ اکے پاس )) کہ وہ بھی صحابیہ ہوئیں)) لے کر آئے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا ۔ انہوں نے فرمایا اس بچے سے کچھ نہ کہوجس رات یہ پیدا ہوئے میرے پاس کوئی نہ تھا میں نے سُنا کہ ہاتف کہہ رہاہے ۔

”یَااَمَۃَ اﷲعَلَی التَّحْقِیْق اَبْشِرِیْ بِالْوَلَدِ الْعَتِیْق اِسْمُہُ فِیْ السَّمَاء الصَّدِیْق لِمُحَمَّدٍ صَاحِب وَّرَفِیْق “

یعنی اے اللہ کی سچی باندی!تجھے خوش خبری ہو اس آزاد بچے کی جس کا نام آسمانوں میں صدیق ہے اور جو محمد ﷺ کا یار و رفیق ہے ۔ (3) (4)

عہد جاہلیت

زمانۂ جاہلیت میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی برادری میں سب سے زیادہ مالدار تھے ۔ مروت و احسان کا مجسمہ تھے ۔ قوم میں بہت معزز سمجھے جاتے تھے ۔ گم شدہ کی تلاش آپ رضی اللہ عنہ کا شیوہ رہا اور مہمانوں کی آپ خوب میزبانی فرماتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار رؤسائے قریش میں ہوتا تھا۔ وہ لوگ آپ رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا کرتے تھے اور آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔

آپ رضی اللہ عنہ قریش کے ان گیارہ لوگوں میں سے ہیں جن کو ایام جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں عزت و بزرگی حاصل رہی کہ آپ رضی اللہ عنہ عہد جاہلیت میں ’’خون بہا‘‘ اور جرمانے کے مقدمات کا فیصلہ کیا کرتے تھے جو اس زمانہ کا بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا ۔ (5) (6) (7)

آپ کا بلا تردد اسلام قبول کرنا

رسول خدا ﷺ نے بیان فرمایا کہ جب میں نے کسی کو بھی اسلام کی دعوت دی تو اس کو تردد ہوا علاوہ ابوبکر کہ جب میں نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے بغیرتردد کے اسلام قبول کر لیا ۔ (8)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سابق الاسلام ہونے کا سبب یہ ہے کہ ا علان نبوت کے قبل ہی سے آپ حضورﷺ کے دوست تھے اور آپ ﷺ کے اخلاق کی عمدگی، عادات کی پاکیزگی اور آپ ﷺ کی سچائی و دیانت داری پر یقینِ کامل رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نبوت و رسالت کی نشانیاں قبل از اسلام ہی معلوم کرچکے تھے۔ اس لیے جب ان کو اسلام کی دعوت دی گئی تو انہوں نے فوراً اسلام قبول کرلیا ۔(9)

معراج کی بلا تأمل تصدیق

شب معراج کی صبح بہت سے مشرکین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کو کچھ خبر ہے ؟ آپ کے دو ست محمد ﷺ کہہ رہے ہیں کہ انہیں رات کو بیت المقدس اور آسمان وغیرہ کی سیر کرائی گئی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کیا واقعی وہ ایسا فرمارہے ہیں…؟ ان لوگوں نے کہا ہاں وہ ایسا ہی کہہ ر ہے ہیں تو آپ نے فرمایا: اگر وہ اس سے بھی زیادہ بعید از قیاس اور حیرت انگیز خبر دیں گے تو بے شک میں اس کی بھی تصدیق کروں گا ۔ (10)

سب سے کامل ایمان

حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے کہ پوری زمین کے مسلمانوں کا ایمان اور حضرت ابو بکر صدیق کا ایمان اگر وزن کیا جائے تو حضرت صدیق اکبرکے ایمان کا پلہ بھاری ہوگا ۔ (11) (12) (13)

غزوۂ بدر میں آپ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کفار مکہ کے ساتھ تھے ۔ اِسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ جنگ بدر میں کئی بار میری زد میں آئے لیکن میں نے آپ سے صرفِ نظر کی اور آپ کو قتل نہیں کیا ۔ اس کے جواب میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے عبدالرحمن !کان کھول کر سن لو کہ اگر تم میری زد میں آجاتے تو میں صرف نظر نہ کرتا بلکہ تم کو قتل کرکے موت کے گھاٹ اتار دیتا ۔ (14)

اِس سے یہ واضح طور پر معلوم ہوا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ایمان سارے صحابہ میں سب سے زیادہ کامل تھا بلکہ درجۂ کمال کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا ۔ (15)

آپ کی شجاعت و بہادری

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار کا واقعہ ہے کہ کافروں نے رسول اللہﷺ کو پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ تم ہی ہو جو کہتے ہو کہ خدا ایک ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :تو قسم خدا کی !اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی حضور ﷺ کے قریب نہیں گیا ۔

آپ آگے بڑھے اور کافروں کو مارا اور انہیں دھکے دے دے کر ہٹایا اور فرمایا :تم پر افسوس ہے کہ تم لوگ ایسی ذات کو تکلیف پہنچا رہے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار صرف اللہ ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگ اپنے ایمان کو چھپاتے تھے مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ایمان کو علی الاعلان ظاہر فرماتے تھے اس لیے آپ سب سے زیادہ بہادر تھے ۔ (16) (17) (18)

جان دی ، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

حضرت ابو بکر صدیق کی سخاوت

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اللہ کے راہ میں خرچ کرنے اور سخاوت کرنے کے بارے میں بھی سارے صحابہ رضی اللہ عنہم پرفوقیت رکھتے تھے ۔ حدیث شریف کی دو مشہور کتابوںترمذی اور ابوداود میں ہے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک روز ہم لوگوں کو اللہ کی راہ میں صدقہ اور خیرات کرنے کا حکم دیا اور حسن ِاتفاق سے اس موقع پر میرے پاس کافی مال تھا۔

میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر حضرت ابو بکر سے آگے بڑھ جانا کسی دن میرے لیے ممکن ہوگا تو وہ آج کا دن ہوگا۔ میں کافی مال خرچ کرکے آج ان سے سبقت لے جاؤں گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، تو میں آدھا مال لے کر خدمت میں حاضر ہوا ۔ تو رسول اللہﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا: اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کتنا چھوڑا…؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آدھا مال ان کے لیے چھوڑ دیا ہے ۔

پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جو کچھ ان کے پاس تھا سب لے آئے ۔ رسول خدا ﷺ نے ان سے پوچھا : اے ابوبکر !اپنے اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ان کے لیے اللہ و رسول کو چھوڑ آیا ہو ں “۔ مطلب یہ ہے کہ میرے اور میرے اہل و عیال کے لیے اللہ اور اس کا رسول ﷺ کافی ہیں ۔

پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں” میں نے اپنے دل میں کہا کہ کسی چیز میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر میں کبھی سبقت نہیں لے جاسکوں گا “ ۔ (19) (20) (21)

ابوبكر کے احسان کا بدلہ

ترمذی شریف میں ہے رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا کہ جس کسی نے بھی میرے ساتھ احسان کیا تھا میں نے ہر ایک کا احسان اتار دیا علاوہ ابوبکر کے احسان کے ، انہوں نے میرے ساتھ ایسا احسان کیا ہے جس کا بدلہ قیامت کے دن ان کو خدائے پاک ہی عطا فرمائے گا ۔
” اور ہر گز کسی کے مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا ہے جتنا فائد ہ کہ ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے“ ۔ (22) (23) (24)

حضور ﷺ سے محبت

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کو بہت چاہتے تھے اور ان سے بے انتہا محبت فرماتے تھے ۔ شروع زمانہ اسلام میں جو شخص مسلمان ہوتا تھا وہ حتی الامکان اپنے اسلام کو چھپائے رکھتا تھا اور سرکار اقدس ﷺ بھی چھپانے کی تلقین فرماتے تھے تاکہ کافروں سے اذیت نہ پہنچے ۔

جب مسلمانوں کی تعداد تقریباً چالیس ہوئی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسولِ خدا ﷺ سے درخواست کی کہ اب اسلام کی تبلیغ کھلم کھلااور علی الاعلان کی جائے ۔ پہلے تو حضور ﷺ نے انکار فرمایا لیکن جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بہت اصرار کیا تو آپ نے قبول فرمالیا اور سب لوگوں کو ساتھ لے کر مسجدِ حرام میں تشریف لے گئے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خطبہ شروع فرمایا اور یہ سب سے پہلا خطبہ ہے جو اسلام میں پڑھا گیا ۔ حضور ﷺ کے چچا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اسی روز اسلام لائے ۔ خطبہ کا شروع ہونا تھا کہ چاروں طرف سے مشرکین مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ۔

حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عظمت وشرافت مکہ معظمہ میں مسلم تھی اس کے باوجود آپ کو اس قدر مارا کہ پورا چہرہ اور کان و نا ک سب لہولہان ہوگئے اور خون سے بھر گئے اور ہر طرح سے آپ کو بہت مارا یہاں تک کہ بے ہوش ہوگئے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبیلہ بنو تمیم کے لوگوں کو خبر ہوئی تو وہ آپ کو وہاں سے اٹھا کر لائے اور کسی کو بھی یہ امید نہیں تھی کہ مشرکین کی اس مار کے بعد آپ زندہ بچ سکیں گے ۔

آپ رضی اللہ عنہ کے قبیلہ کے لوگ مسجد ِکعبہ میں آئے اور اعلان کیا کہ اگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس حادثہ میں انتقال کرگئے تو ہم ان کے بدلہ میں عتبہ بن ربیعہ کو قتل کریں گے کہ اس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مارنے میں بہت زیادہ حصہ لیا تھا ۔

شام تک آپ رضی اللہ عنہ بے ہوش رہے اور جب ہوش میں آئے تو سب سے پہلا لفظ یہ تھا کہ حضور ﷺ کاکیا حال ہے …؟ لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو بہت ملامت کی کہ انہی کے ساتھ رہنے کی وجہ سے یہ مصیبت پیش آئی اور دن بھر بے ہوش رہنے کے بعد بات کی تو سب سے پہلے انہی کا نام لیا۔

آپ سب سے پہلے ان کا نام کیوں نہ لیں کہ ان کے خون کے ایک ایک قطرہ میں سرکارِ اقدس ﷺ کی محبت موجزن تھی ۔ کچھ لوگ بددلی کے سبب اور بعض لوگ اس خیال سے اٹھ کر چلے گئے کہ جب بولنے لگے ہیں تو اب آپ کی جان بچ جائے گی ۔ جاتے ہوئے لوگ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ حضرت ام الخیر رضی اللہ عنہا))کہ بعد میں وہ بھی مسلمان ہوئیں)) سے کہہ گئے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے کھانے پینے کے لیے کسی چیزکا انتظام کردیں ۔ وہ کچھ تیار کرکے لائی اور کھانے کے لیے بہت کہا مگر عاشق صادق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وہی ایک صدا تھی کہ محمد ﷺ کا کیا حال ہے اور ان پر کیا گزری ؟ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ نے فرمایا کہ مجھے کچھ نہیں معلوم کہ ان کا کیا حال ہے ؟

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن اُم جمیل رضی اللہ عنہاکے پاس جاکر دریافت کرو کہ حضور ﷺ کا کیا حال ہے ؟ وہ اپنے صاحبزادے کی اس بے تابانہ درخواست کو پوری کرنے کے لیے دوڑی ہوئی اُم جمیل رضی اللہ عنہاکے پاس گئیں اور سیدنا محمد رسول اللہﷺ کا حال دریافت کیا ۔ وہ بھی اس وقت تک اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھیں ۔ انہوں نے ٹال دیا، کوئی واضح جواب نہیں دیا اور کہا :اگر تم کہو تو میں چل کر تمہارے بیٹے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھوں کہ ان کا کیا حال ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہاں چلو ۔ حضرت امِ جمیل رضی اللہ عنہ اان کے گھر گئیں اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حالت دیکھ کر برداشت نہ کرسکیں بے تحاشا رونے لگیں ۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ حضورﷺ کا کیا حال ہے ؟ حضرت ام جمیل رضی اللہ عنہانے آپ کی والدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ سن رہی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان سے نہ ڈرو ۔ تو اُم جمیل رضی اللہ عنہانے کہا کہ حضور ﷺ بخیر و عافیت ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کہ اس وقت کہاں ہیں…؟ انہوں نے کہا کہ حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف رکھتے ہیں ۔

فرمایا :قسم ہے خدا ذوالجلال کی کہ میں اس وقت تک کچھ نہیں کھاؤں گا جب تک کہ حضورﷺ کی زیارت نہیں کرلوں گا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ تو بہت زیادہ بے قرار تھیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کچھ کھا پی لیں۔ مگر آپ رضی اللہ عنہ نے قسم کھالی کہ جب تک حضور ﷺ کی زیارت نہیں کرلوں گا کچھ نہیں کھاؤں گا ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ نے لوگوں کی آمدورفت کے بند ہوجانے کا انتظار کیا تاکہ ایسا نہ ہو کوئی آپ رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر پھر اذیت پہنچادے ۔

جب رات کا بہت سا حصہ گزر گیا اور لوگوں کی آمد ورفت بند ہوگئی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی والدہ محترمہ لے کرحضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچیں ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور ﷺ سے لپٹ گئے اور حضور ﷺ بھی اپنے عاشقِ صادق سے لپٹ کر روئے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حالت دیکھ کر سب رونے لگے ۔ (25) (26) اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ آقائے دوعالم ﷺ سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو غایت درجہ محبت تھی اور کیوں نہ ہو ۔

حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت

آقائے دوعالم ﷺ کی وفات کے بعد یہ سوال پیداہوا کہ ان کا نائب اور خلیفہ کس کو مقرر کیا جائے …؟ لہذا خلافت کے معاملہ کو حل کرنے کے لئے صحابہ کرام علیھم الرضوان حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں جمع ہوئے ۔ جن میں حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنھما اور دوسرے بہت سے اجلہ صحابہ علیھم الرضوان موجود تھے ۔

سب سے پہلے ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں سے اس طرح خطاب کیا کہ اے مہاجرین!آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ جب رسول اللہﷺ آپ حضرات میں سے کسی شخص کو کہیں کا عامل مقرر فرماتے تھے تو انصار میں سے بھی ایک شخص کو اس کے ساتھ کردیاکرتے تھے۔ لہذا اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ خلافت کے معاملہ میں بھی ایک شخص مہاجرین میں سے ہو اور ایک انصار میں سے ہو۔ پھر ایک دو سرے انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی اسی قسم کی تقریر فرمائی ۔

ان لوگوں کی تقریروں کے بعد حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے فرمایا:حضرات! کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مہاجرین میں سے تھے لہذا ان کا نائب اور خلیفہ بھی مہاجرین ہی میں سے ہوگا اور جس طرح ہم لوگ پہلے حضور ﷺ کے معاون ومددگار رہے اب اسی طرح خلیفۂ رسول اللہ کے مددگار رہیں گے ۔

یہ فرمانے کے بعد انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ اب یہ تمہارے والی ہیں اور پھر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے آپ سے بیعت کی اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اور پھر تمام انصار و مہاجرین علیھم الرضوان نے آپ رضی اللہ عنہ سے بیعت کی ۔پھر اسکے بعد دیگر صحابہ نے بھی اسی طرح آپ کے ہاتھ پر بیعت کا سلسلہ فرمایا۔

آج عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوتا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں اگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر نہ ہوئے ہوتے تو روئے زمین پر خدائے پاک کی عبادت باقی نہ رہ جاتی ۔ اسی طرح قسم کے ساتھ آپ نے تین بار فرمایا ۔ لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا :اے ابوہریرہ !آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں…؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول خداﷺ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر مقرر کرکے شام کی طرف روانہ فرمایا تھا اور وہ ابھی ذی خشب کے مقام پر تھے کہ حضور ﷺ کا وصال ہوگیا ۔ اس خبر کو سن کر اطراف مدینہ کے عرب مرتد ہوگئے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے اور اس بات پر زور دیا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو واپس بلالیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:” قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں! اگر رسول اللہﷺ کی پاک بیویوں کے پاؤں کتے پکڑ کر گھسیٹیں تب بھی میں اس لشکر کو واپس نہیں بلا سکتا جس کو اللہ کے رسول ﷺ نے روانہ فرمایاتھا اور نہ میں اس پرچم کو سرنگوں کروں گاجس کو میرے حضور ﷺ نے لہرایا تھا“ ۔

پس حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا ۔ وہ روانہ ہوئے تو مرتد قبیلے دہشت زدہ ہوگئے ۔ یہاں تک کہ وہ سلطنت روم کی حد میں پہنچ گئے ۔ طرفین میں جنگ ہوئی مسلمانوں کا لشکر فتح یاب ہو کر واپس ہوا تو اس طرح اسلام کا بول بالا ہوگیا ۔ (27) (28) (29)

محبوب دوعالم ﷺ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جو بے انتہا اور غایت درجہ محبت تھی ۔ اسی محبت کا یہ اثر ہے کہ نازک وقت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زور ڈالنے کے باوجود حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکرکو واپس بلانا اور پیارے مصطفے ﷺ کے لہرائے ہوئے جھنڈے کو سرنگوں کرنا آپ نے گواراہ نہ کیا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمنوں کے حوصلے پست ہوگئے اور اسلام کا پھر سے بول بالا ہوگیا ۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضور ﷺ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی محبت نے اسلام کو زندۂ جاوید بنادیا ۔

منکرین سے جنگ کروں گا

رحمت عالم ﷺ کے وصال فرمانے پر بعض لوگ تو اسلام کے سارے احکام کے منکر ہو کر مرتد ہوگئے اور کچھ لو گوں نے کہا کہ ہم زکوٰۃ نہیں دیں گے ۔ یعنی اس کی فرضیت کے منکر ہوگئے اور زکوٰۃ کی فرضیت چونکہ نص قطعی سے ثابت ہے تو اس کے منکر ہو کر وہ مرتد ہوگئے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے جہاد کا ارادہ فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان سے کہا کہ اس وقت منکرین زکوٰۃ سے جنگ کرنا مناسب نہیں ۔

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :خدائے ذوالجلال کی قسم! اگر وہ لوگ ایک رسی یا بکری کا ایک بچہ بھی حضورﷺ کے زمانہ میں زکوٰۃ دیا کرتے تھے اور اب اس کے دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جنگ کروں گا ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ مہاجرین و انصار کو ساتھ لے کر اعراب کی طرف نکل پڑے اور جب وہ بھاگ کھڑے ہوئے تو حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو آپ امیر ِلشکر بنا کر واپس آگئے۔ انہوں نے اعراب کو جگہ جگہ گھیرا تو اللہ پاک نے انہیں ہر جگہ فتح عطا فرمائی ۔

اب صحابہ کرام خصوصاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی رائے کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا اور کہا کہ خدا کی قسم !اللہ پاک نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا ہے اور انہوں نے جو کچھ کیا وہ حق ہے ۔ (30) (31) (32) اور واقعۃً بھی یہی ہے کہ اگر اس وقت مانعین ِزکوٰۃ کی سرکوبی نہ کی جاتی اور انہیں چھوٹ دے دی جاتی تو پھر کچھ لوگ نماز کے بھی منکر ہوجاتے اور بعض لوگ روزہ سے بھی انکار کردیتے اور کچھ لوگ بعض دوسری ضروری چیزوں کا انکار کردیتے توا سلام اپنی شان و شوکت کے ساتھ باقی نہ رہتا بلکہ کھیل بن جاتا اور اس کا نظام درہم برہم ہوجاتا ۔

حضرت ابو بکر صدیق کی کرامات

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کئی کرامتیں ظاہر ہوئیں ہیں جن میں سے چند کرامتوں کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے ۔

حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک بار میرے باپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اصحابِ صفہ میں سے تین آدمیوں کو اپنے گھر لائے اور ان کو کھانا کھلانے کا حکم فرما کر خود رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں چلے گئے یہاں تک کہ آپ نے رات کا کھانا حضور ﷺ ہی کے یہاں کھالیا اور بہت زیادہ رات گزر جانے کے بعد اپنے مکان پر تشریف لائے ۔ ان کی بیوی نے کہا کہ مہمانوں کے پاس آنے سے آپ کو کس چیز نے روک رکھا ؟

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے ابھی تک مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا ۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے کھانا پیش کیا تھا مگر مہمانوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے بغیر کھانا کھانے سے انکار کردیا ۔ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ اپنے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ پر سخت ناراض ہوئے اور ان کو بہت برا بھلا کہا کہ اس نے مجھ کو مطلع کیوں نہیں کیا؟ پھر کھانا منگوا کر مہمانوں کے ساتھ کھا نے کے لیے بیٹھ گئے ۔

راوی کا بیان ہے کہ ” خدا کی قسم!ہم جو بھی لقمہ اٹھاتے اس کے نیچے کھانا اس سے زیادہ ہوجاتایہاں تک کہ ہم سب شکم سیر ہوگئے اور جتنا کھانا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ بچ رہا“ ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے متعجب ہو کر اپنی بیوی سے فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ برتن میں کھانا پہلے سے کچھ زیادہ نظر آتا ہے ؟ آپ کی بیوی نے قسم کھا کر کہا کہ بلا شبہ یہ کھانا پہلے سے تین گنا زیادہ ہے ۔ پھر وہ کھانا اٹھا کر حضور ﷺ کی خدمت میں لے گئے صبح تک کھانا بارگاہ رسالت میں رہا ۔

مسلمانوں اور کافروں کی درمیان ایک معاہدہ ہوا تھاجس کی مدت ختم ہوگئی تھی۔ تو اس روز صبح کے وقت ایک لشکر تیا ر کیا گیا جس میں بہت آدمی تھے ۔ پوری فوج نے اس کھانے کو شکم سیر ہو کر کھایا پھر بھی اس برتن میں کھانا کم نہیں ہوا ۔ (33) (34) مہمانوں کے کھانے کے بعد پہلے سے بھی کھانے کا تین گنا زیادہ ہوجانا اور صبح کے وقت پوری فوج کا اس کھانے کو شکم سیر ہو کر کھانا پھر بھی برتن میں کھانے کا کم نہ ہونایہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عظیم کرامت ہے ۔

ماں کے پیٹ میں کیا ہے ۔ ۔ ؟

حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میرے باپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے مرض موت میں مجھے وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میری پیاری بیٹی !میرے پاس جو کچھ مال تھا آج وہ مال وارثوں کا ہوچکا ہے ۔ میری اولاد میں تمہارے دو بھائی عبدالرحمن و محمد ہیں اور تمہاری دو بہنیں ہیں ۔ لہذا میرے مال کو تم لوگ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق تقسیم کرکے اپنا اپنا حصہ لے لینا ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ ابا جان !میری تو ایک ہی بہن بی بی اسماء ہیں۔ یہ میری دوسری بہن کون ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری سوتیلی ماں حبیبہ بنت خارجہ جو حاملہ ہے اس کے پیٹ میں لڑکی ہے وہی تمہاری دوسری بہن ہے ۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کے وصال فرمانے کے بعد آپ کے فرمان کے مطابق حبیبہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہاکے پیٹ سے لڑکی ( اُم کلثوم ) ہی پیدا ہوئیں ۔ (35) (36)

اس حدیث شریف سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دو کرامتیں ثابت ہوئیں ۔ پہلی کرامت یہ کہ وفات سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ میں اسی مرض میں انتقال کرجاؤں گا۔ اسی لیے آپ رضی اللہ عنہ نے وصیت کے وقت یہ فرمایا کہ آج میرا مال میرے وارثوں کا مال ہوچکا ہے ۔ دوسری کرامت یہ ثابت ہوئی ہے کہ حاملہ کے پیٹ میں لڑکی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ یقین کے ساتھ جانتے تھے اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے فرمایا کہ حبیبہ بنت خارجہ رضی اللہ عنہاجو حاملہ ہے اس کے پیٹ میں لڑکی ہے وہی تمہاری بہن ہے۔بے شک یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دوعظیم الشان کرامتیں ہیں ۔

حضرت ابو بکر صدیق کی وفات

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان فرمایا کہ والد گرامی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی علالت کی ابتدا یوں ہوئی کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ۷ جمادی الاخریٰ پیر کے روز غسل فرمایا اس روز سردی بہت زیادہ تھی جو اثر کر گئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو بخار آگیا اور پندرہ دن تک آپ رضی اللہ عنہ علیل رہے ۔ اس درمیان میں آپ رضی اللہ عنہ نماز کے لیے بھی گھر سے باہر تشریف نہیں لاسکے ۔ آخر کار بظاہر اسی بخار کے سبب ۶۳ سال کی عمر میں ۲ سال ۲ ماہ سے کچھ زائد امور ِخلافت انجام دینے کے بعد ۲۲ جمادی الاخریٰ ۱۳ھ کو آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور آقائے دو عالمﷺ کے مبارک پہلو میں مدفون ہوئے ۔ (37) (38)
”انا للہ وانا الیہ راجعون“

آپ کی خصوصیات

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ میں بہت سی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن میں سے چند خصوصیات کو ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔

چار اہم خصوصیات:

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو خدائے عزوجل نے ایسی چار خصلتوں سے مختص فرمایا جن سے کسی کو سرفراز نہیں فرمایا ۔

1. آپ کا نام صدیق رکھا اور کسی دوسرے کا نام صدیق نہیں ۔
2. آپ رسول اللہﷺ کے ساتھ غارِ ثور میں رہے ۔
3. آپ حضور ﷺ کی ہجرت میں رفیق ِ سفر رہے ۔
4. سرکار اقدس ﷺ نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائیں اور دوسرے لوگ آپ کے مقتدی بنیں ۔ (39)

نسل در نسل صحابی

ایک بہت بڑی خصوصیت آپ کی یہ بھی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ صحابی، آپ کے والد صحابی ، آپ کے بیٹے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ صحابی اور ان کے صاحبزادے ابو عتیق محمد رضی اللہ عنہ صحابی یعنی آپ کی چار نسل صحابی ہیں ۔ (40)

دعا ہے کہ خدائے عزوجل ہم سب کو حضور ﷺ کی سچی غلامی عطا فرمائے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

4.5/5 - (4 votes)

حوالہ جات

حوالہ جات
1 العجم الکبیر، الحدیث: ۱۲۵۶۲ ، ۱۲ /۷۱
2 کہ وہ بھی بعد میں صحابی ہوئے
3 تنزیۃ المکانۃالحیدریہ“ص ۱۳
4رواہ القاضی ابو الحسین احمد بن محمد الزبیدی بسندہ فی معالی القرش الی عوالی العرش
5تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق ، فصل فی مولدہ الخ، ص 31
6تاریخ مدینہ دمشق، حرف العین، الرقم: ۳۳۹۸، ۳۰ / ۳۳۵
7تاریخ الخلفاء
8تاریخ مدینۃ دمشق، عبداللہ و یقال عتیق، ۴۴/۳۰
9 تاریخ الخلفاء ، ابو بکر الصدیق، فصل فی اسلامہ، ص۲۷
10 المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ذکر الاختلاف فی امر الخلافۃ ، الحدیث: ۴۵۱۵، ۴ /۲۵
11تاریخ الخلفاء، ص۴۰
12 تاریخ الخلفاء ص ۴۰
13کنز االعمال ، کتاب الفضائل ، فضل الصدیق ، الحدیث:۳۵۶۰۹ ، ۶/۲۲۲ ، الجزء۱۲
14المصنف لابن شیبۃ، کتاب المغازی، باب ھذا ما حفظ ابوبکر ۔ ۔ ، الحدیث:۵۴ ، ۸ /۴۹۴
15نوٹ:مذکورہ واقعہ ہمیں کتب ِاحادیث میں غزوۂ بدر کے متعلق نہیں ملا بلکہ ابن ابی شیبۃ، کنز العمال، جامع الاحادیثوغیرہ میں یہ واقعہ غزوۂ احد کے متعلق نقل ہے ۔
16 تاریخ الخلفاء ، ابو بکر صدیق، شجاعتہ، ص۲۸
17 کنز العمال ، کتاب الفضائل، فضل الصدیق ، الحدیث: ۳۵۶۸۵، ۶ /۲۳۴، الجزء: ۱۲
18تاریخ الخلفاء، ۲۵
19 مشکاۃ المصابیح، کتاب المناقب، باب مناقب ابی بکر، الحدیث:6030، 2/416
20 سنن الترمذی ، کتاب المناقب عن رسول اللہ، فی مناقب ابی بکر وعمرکلیہما، الحدیث: ۳۶۹۵، ۵ /۳۸۰
21مشکوۃ شریف، ص۵۵۶
22 مشکاۃ المصابیح، کتاب المناقب، مناقب ابی بکر، الحدیث: 6026، 2/416
23 مشکوۃ شریف، ص۵۵۵
24ترمذی
25تاریخ الخلفاء، ابو بکر الصدیق، فصل فی شجاعتہ الخ، ص 38
26تاریخ الخلفاء وغیرہ
27 تاریخ الخلفاء ، ابوبکر صدیق، فصل فیما وقع فی خلافتہ، ص ۵۶
28تاریخ مدینۃ دمشق، عبد اللہ ویقال عتیق، ۳۱۶/۳۰
29تاریخ الخلفاء، ص۵۱
30صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الامر بقتال الناس حتی یقولوا لاالہ الااللہ ۔ ۔ ۔ الخ، الحدیث :۳۲، ص۳۲
31الریاض النضرۃ، ۱ /۱۴۷
32تاریخ مدینۃ دمشق، باب ذکر بعث النبی ﷺ ، ۲ /۵۳
33صحیح البخاری، کتاب المناقب ، باب فی علامۃ النبوۃ فی الاسلام، الحدیث:۳۵۸۱، ۴۹۵/۲
34 بخاری، جلد اول، ص۵، ۶
35مؤطا امام محمد، الحدیث: 808 ، 1 /286
36 مؤطا امام محمد، باب الخلی، ص۳۴۸
37تاریخ مدینۃ دمشق، عبد اللہ و یقال، ۴۰۹/۳۰
38االاکمال فی اسماء الرجال، حرف الباء، فصل فی الصحابۃ، ص۵۸۷، ملتقطاً
39 تاریخ مدینۃ دمشق، عبد اللہ و یقال عتیق، ۲۶۶/۳۰
40 المعجم الکبیر، نسبۃ ابی بکر الصدیق و اسمہ، الحدیث:۱۱، ۵۴/۱
اللہ پر توکل

ایک بچی اور آسمانی دسترخوان

ماہ رجب کے فضائل

ماہ رجب کی فضیلت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

شب معراج کی فضیلت اور نوافل

معجزات سیرت انبیاء علیہم السلام کا بہت ہی نمایاں اور روشن باب ہیں۔ ان کی حقانیت سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قانون الٰہی ہے اس نے جب بھی انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاء علیہم...

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)