اسلام ایک مکمل دین ہے جس میں ہر شعبہ زندگی کے لیے رہنمائی موجود ہے۔ جہاد بھی اسلام کا ایک اہم جز ہے جس کا تعلق ہر مسلمان سے ہے۔ جہاد کی اقسام کئی طرح کی ہیں، جیسا کہ علم کے ذریعے جہاد، مال کے ذریعے یا عمل کے ذریعے جہاد، جہاد بالنفس اور جہاد بالقتال۔ آج ہمارا موضوع خاص جہاد بالقتال ہے۔
جہاد بالقتال سے کیا مراد ہے؟
یہ جہاد میدان جنگ میں کافروں اور دین کے دشمنوں کے خلاف اس وقت صف آراء ہونے کا نام ہے۔ جب دشمن سے آپ کی جان مال یا آپ کے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں۔
جہاد کی اہمیت
جہاد کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس کے ذریعے مسلمان اپنے دین کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ اپنے معاشرے کو بہتر بنا سکتے ہیں اور دنیا میں عدل و انصاف قائم کر سکتے ہیں۔ ہمارے اسلاف کی سیرت جہاد کے واقعات سے بھری پڑی ہے، انہی میں ایک جنگ کا واقعہ آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔
جنگ یرموک
مسلمان شروع سے ہی جنگجو رہے ہیں۔ ایمان کی طاقت نے ہمیشہ مسلمانوں کو دشمنوں پر برتری دی ہے۔ چاہے وہ احد کا میدان ہو یا پھر جنگ بدر میں مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے لشکر کی کافروں کی ایک بڑے لشکر پر برتری ہو۔
ایک مرتبہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ یرموک میں آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جہاد کرنے میں شریک تھے۔ وہ دشمن کی ایک بڑی فوج سے لڑ رہے تھے۔ مسلمانوں کی تعداد چالیس ہزار جبکہ دشمنوں کی تعداد دولاکھ چالیس ہزار تھی۔
مسلمان اپنے جوش ایمانی سے نہایت جم کر لڑے اور اللّہ پاک نے ان کی مدد فرمائی۔ مسلمانوں کے اس چھوٹے سے لشکر نے کافروں کے ایک بڑے لشکر کو عبرتناک شکست دے دی۔ مسلمانوں نے جب بھی اسلام کی سربلندی کے لئے جہاد کیا اللہ پاک نے ان کی مدد کی وہ دشمنوں پر غالب ہی رہے ہیں۔
جہاد کا حکم
یہ ایک ایسا فریضہ ہے جس کا ذکر قرآن و سنت میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں اللّہ پاک نے کئی مقامات پر جہاد کا حکم دیا ہے:
ترجمہ: اور اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو، بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کوپسند نہیں کرتا۔ (1)
خود ہمارے نبی کریم ﷺ نے کئی غزوات (2) میں شرکت کی۔ نا صرف یہ کہ شرکت کی بلکہ جہاد کرنے کی ترغیب بھی دی۔
جہاد کی ترغیب و فضیلت
احادیث مبارکہ میں کئی مقامات پر جہاد کی فضلیت بیان کی گئی ہے۔ جس سے جہاد کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا ” اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا “ کہا گیا ، اس کے بعد کون سا؟ فرمایا کہ ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا “ کہا گیا ، پھر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ” حج مبرور۔“ (3)
جہاد کرنے والے کو سامانِ سفر، سامان جنگ یا روٹی کپڑا، سواری دینے والے کو بھی جہاد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ حدیث شریف میں بھی اس چیز کی ترغیب دی گئی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جس نےاللہ پاک کی راہ میں جہاد کرنے والے کو ساز و سامان دیا تو گویا اس نےبھی جہاد کیا اور جس نے جہاد کرنے والے کے اہل و عیال کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی تو اس نے بھی جہاد کیا۔‘‘ (4)
جہاد کا مقصد
جہاد کا مقصد اللہ پاک کی رضا حاصل کرنا اور دنیا میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔ اس کے ذریعے مسلمان شہادت کا رتبہ حاصل کرتے ہیں۔ جس کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ شہید زندہ ہوتا ہے، اسے مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
ترجمہ: اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔(5)
لہذا ہمیں چاہیے کہ جہاد کے فریضے کو سمجھیں اور جب ضرورت ہو تو اسے خوشی خوشی انجام دیں۔ یہ ایک عظیم فریضہ ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں جہاد کا جذبے کے ساتھ شہادت کا جام نصیب فرمائے۔ آمین