اللہ پاک نے جو کچھ عالم میں ہونے والا تھا اور جو کچھ بندے کرنے والے تھے سب کو اپنے علم سے جان کر لکھ دیا۔ اسی کو تقدیر کہتے ہیں۔ اب اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان مجبور ہے۔ اسے تو وہی کرنا ہے جو تقدیر میں لکھا ہے۔ بلکہ جو یہ کرنے والا تھا تقدیر میں وہ لکھا گیا ۔
اسے آسان مثال سے یوں سمجھیں کہ ادویات پر ایک ایکسپائری ڈیٹ (Expiry Date) لکھی ہوتی ہے۔ کہ یہ دوائی فلان تاریخ کو خراب ہوگی۔ اب کوئی یہ کہے کہ دوائی اس لیے خراب ہو گی کیونکہ اس پر ایکسپائری ڈیٹ لکھی ہے. تو اسکا یہ کہنا درست نہ ہوگا۔ بلکہ دوائی نے تو اپنے مقررہ وقت پر خراب ہونا تھا۔ یہ تاریخ تو فقط اسکی خبر دے رہی تھی۔ اسی طرح تقدیر کا معاملہ ہے کہ انسان نے وہ کام مقررہ وقت میں کرنا تھا۔ تقدیر تو اسکی خبر دے رہی تھی۔
تقدیر لکھے جانے کی ایک بہت پیاری وجہ قرآن میں بیان کی گئی ہے۔ سورۃ حدید کی آیت نمبر 22 اور 23 میں اللہ پاک فرماتا ہے:
ترجمہ: نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ہے قبل اس کے کہ ہم اُسے پیدا کریں بےشک یہ اللہ کو آسان ہے. اس لیے کہ غم نہ کھاؤ اس پر جو ہاتھ سے جائے اور خوش نہ ہو اس پر جو تم کو دیا اور اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اترونا (متکبر)بڑائی مارنے والا.
انسان کی فطرت میں یہ بات ہے کہ وہ جلدی مایوس ہو جاتا ہے۔ اسکی مایوسی کو دور کرنے اور غم کو ہلکا کرنے کیلئے یہ ہے کہ جب اسے غم پہنچے تو اسکا ذہن اسے اس بات کی طرف لے جائے کہ تقدیر میں لکھا تھا اس لیے ہو گیا۔ تا کہ اسکا غم ہلکا ہو۔ اسی طرح جب خوشی ملے تو بھی اپنا کمال نہ سمجھے۔ بلکہ اسے اللہ پاک کی طرف پھیرے کہ اس نے تقدیر میں میرے لیے اسے لکھا ہے۔ تا کہ وہ تکبر و سرکشی سے محفوظ رہے اور ہر حال میں اللہ پاک کی رضا پر راضی رہے۔