اولاد دنیا میں اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔ لہذا جس کو اللہ پاک یہ نعمت عطا فرماۓ اسکو چاہیے کہ وہ خدا کا شکر ادا کرے اور اگر بے اولادی ہو تو صبر کرے۔ مگر آجکل کچھ مرد اور عورتیں اولاد نہ ہونے کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں اور اس کمی کو زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ اہل ایمان کی شان نہیں۔ مومن کو دنیا اور اسکی نعمتوں کے حاصل نہ ہونے کی زیادہ فکر نہیں کرنا چاہیے۔
زیادہ فکر اور غم آخرت کا ہونا چاہیے۔ اگر آپ نے اپنی آخرت سدھار لی تو دنیا کی کسی نعمت کے نہ پانے کا زیادہ غم نہیں کرنا چاہیے۔ اولاد اللہ پاک کی نعمت ضرور ہے لیکن سمجھ والوں کیلئے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مال اور اولاد کو اللہ پاک نے اپنے قرآن میں دنیا کی رونق فرمایا آخرت کی نہیں۔ اللہ پاک فرماتا ہے :
مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی رونق ہیں اور باقی رہنے والی اچھی باتیں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے زیادہ بہتر اور امید کے اعتبار سے زیادہ اچھی ہیں ۔ (1)
قرآن کریم میں مال اور اولاد کو فتنہ یعنی آزمائش بھی کہا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کو حاصل کر کے اگر خدا اور رسول کا حق ادا کرتا رہا تو تب تو ٹھیک، اور اگر مال و اولاد کی محبت میں اللہ و رسول ﷺ کو بھول گیا، حرام و حلال کا فرق کھو بیٹھا تو یہ نہایت بری چیزیں ہیں۔ البتہ نیک اولاد آخرت کا بھی سرمایہ ہے۔ لیکن آنے والے زمانے میں اولاد کے نیک ہونے کی امیدیں کافی کم ہو گئی ہیں۔
اللہ والوں میں بے اولادی
اللہ کے محبوب بندوں یعنی اللہ والوں میں بھی ایسے بہت سے لوگ ہوۓ ہیں جن کے اولاد نہ تھی۔ سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺ کی سب سے پیاری بیوی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بھی کوئی اولاد نہ تھی۔ بلکہ حضور ﷺ کی گیارہ بیویاں تھیں جن میں آپ کی اولاد صرف دو سے ہوئی۔ صحابہ کرام میں حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ بھی بے اولاد تھے۔ (2)
ہمارے کچھ بھائی اور بہنیں بے اولاد ہونے کی وجہ سے ہر وقت کڑھتے رہتے ہیں۔ اور زندگی بھر دوا دارو اور دعا و تعویذ کراتے رہتے ہیں۔ لوٹ کھسوٹ مچانے والے کچھ ڈاکٹر و حکیم اور عامل ان کی اس کمزوری سے خوب فائدہ اٹھاتے چکر پر چکر لگواتے یہاں تک کہ انہیں برباد کر دیتے ہیں۔
اور آجکل ان جیسے فریب کاروں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ کچھ ٹوکا ٹاکی کرنے والی اور مشورے دینے والی بوڑھی عورتیں ان بیچاروں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتیں اور نئے نئے حکیموں، ڈاکٹروں اور مکاروں کے پتے بتاتی رہتی ہیں۔ یہاں سے چھوٹے تو وہاں پہنچے اور یہاں سے نکلے تو وہاں پھنسے بچاروں کی اس میں کٹ جاتی ہے۔
سب سے بڑا تعویذ
بھائیو اور بہنوں! صبر سے بڑی کوئی دوا نہیں اور شکر سے بڑا کوئی تعویذ نہیں۔ اس سے ہمارا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ بے اولادی کی دوا اور تعویذ نہ کریں۔ بلکہ ہمارا مقصد یہ بتاتا ہے کہ تھوڑا بہت علاج بھی کرا لیں اور اچھے بھلے مولوی، عالموں، پیروں، فقیروں سے دعا تعویذ بھی کرا لیں۔ اگر کامیابی ہو جاۓ تو ٹھیک اللہ پاک مبارک فرماۓ اور نہ ہو تو صبر سے کام لیں۔ اللہ پاک کی عبادت، اس کے ذکر اور قرآن کی تلاوت میں دھیان لگائیں۔ زیادہ حکیموں، ڈاکٹروں اور فراڈی بابوں کے دروازوں کے چکر نہ لگائیں۔ اس میں زندگی کی قیمتی گھڑیوں کو نہ گنوائیں۔ آخر ہونا وہی ہے جو رب کی مرضی ہے۔
اور ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ اب قریب قیامت جو زمانہ آ رہا ہے اس میں زیادہ تر اولاد نا اہل نکل رہی ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ اب اولاد سے لوگوں کو سکون کم ہی حاصل ہو گا۔ اب بوڑھاپے میں ماں باپ کو کما کر کھلانے والے بہت کم ہیں۔ بلکہ نہ ہونے کے برابر اور نوچ نوچ کر کھانے والے زیادہ پیدا ہوں گے۔ آج لاکھوں کی تعداد میں صاحب اولاد بوڑھے اور بوڑھیاں صرف اس لئے بھیک مانگتے گھوم رہے ہیں کہ ان کی اولاد نے جو کچھ ان کے پاس تھا وہ یا تو ختم کر دیا یا اپنے قبضے میں کر لیا اور ماں باپ کو بھیک مانگنے کیلئے چھوڑ دیا۔
بلکہ بعض تو ماں باپ سے بھیک منگوا کر خود کھا رہے ہیں اور اپنے بچوں کو کھلا رہے ہیں۔ گویا کہ اب ماں باپ اس لئے نہیں ہیں کہ بوڑھاپے میں اولاد کی کمائی کھائیں۔ بلکہ اب اس لئے ہیں کہ مرتے دم تک انہیں کما کر کھلائیں۔ خواہ اس کے لئے انہیں بھیک ہی کیوں نہ مانگنا پڑے۔
نافرمان اولاد
آج کتنے لوگ ہیں کہ ان کی زندگی چین و سکون اور شان کے ساتھ کٹی۔ لیکن اولاد کی وجہ سے برے دن دیکھنے کو ملے۔ کسی کو لڑکے کی وجہ سے جیل اور تھانے جانا پڑا اور پولیس کی کھری کھونٹی سننا پڑیں۔ کسی کی جوان لڑکی نے ناک کٹوا دی اور پورے گھر کی عزت خاک میں ملا دی۔ چار آدمیوں میں بیٹھنے کے لائق نہیں چھوڑا۔
اس سب سے ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ اولاد مطلقا کوئی بری چیز ہے یا بے اولاد افراد اولاد حاصل کرنے کے لئے بالکل کوشش نہ کریں۔ بلکہ بات وہی ہے جو ہم لکھ چکے۔ کہ اللہ پاک نیک اولاد دے تو مبارک، اسکا شکر کریں اور نہ دے تب بھی پریشان نہ ہوں۔ معمولی دوا تدبیر کے ساتھ ساتھ صبر و شکر ہی سے کام لیں۔
اور یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ بد مذہب و بد دین یا خدا اور رسول ﷺ اور ماں باپ کی نافرمان، بگڑی ہوئی، چور، ڈکیت، شرابی، زنا کار و حرام کار، عیاش و بدمعاش اولاد والا ہونے سے بے اولادی ہی اچھے ہے۔(3)