حضرت سیدنا وہب بن منبِہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے منقول ہے: دوعابد یعنی عبادت گزار پچاس سال تک اللہ پاک کی عبادت کرتے رہے۔ پچاسویں سال کے آخر میں ان میں سے ایک عابد سخت بیمار ہو گئے۔ وہ بارگاہ رب عزوجل میں اس بیماری کی وجہ سے آہ وزاری کرتے ہوئے اس طرح التجا کرنے لگے:
’’ اے میرے پاک پروردگار! میں نے اتنے سال مسلسل تیرا حکم مانا۔ تیری عبادت بجا لایا پھر بھی مجھے اس میں مبتلا کر دیا گیا۔ اس میں کیا حکمت ہے ؟ میرے مولیٰ! میں تو آزمائش میں ڈال دیا گیا ہوں۔‘‘
اللہ پاک نے فرشتوں کو حکم فرمایا:ان سے کہو،’’تم نے ہماری ہی امداد واحسان اور عطا کردہ توفیق سے ہماری عبادت کی سعادت پائی، باقی رہی بیماری! تو ہم نے تم کو اَبرار کا رتبہ دینے کے لئے بیمار کیا ہے۔ تم سے پہلے کے لوگ تو بیماری و مصیبتوں کے خواہش مند ہوا کرتے تھے اور ہم نے تمہیں بن مانگے عطا فرما دی ۔‘‘(1)
بیماری بہت بڑی نعمت ہے
حضرت علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: بیماری بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے، اس کے منافع بے شمار ہیں، اگرچہ آدمی کو بظاہر اس سے تکلیف پہنچتی ہے مگر حقیقۃً راحت و آرام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہاتھ آتا ہے۔
یہ ظاہری بیماری جس کو آدمی بیماری سمجھتا ہے، حقیقت میں روحانی بیماریوں کا ایک بڑا زبردست علاج ہے۔ حقیقی بیماری امراض روحانیہ (2) ہیں کہ یہ البتہ بہت خوف کی چیز ہے اور اسی کو مرض مہلک (3) سمجھنا چاہئے۔(4)
یہ ترا جسم جو بیمار ہے تشویش نہ کر یہ مرض تیرے گناہوں کو مٹا جاتا ہے
اصل بربادکن امراض گناہوں کے ہیں بھائی کیوں اِس کو فراموش کیا جاتا ہے(5)