اس زمین نے انسانی تاریخ کا سب سے حیرت انگیز معاشرہ دیکھ رکھا ہے۔ جہاں بادشاہ کے دربار میں ایک ایسا مقدمہ پیش ہوا۔ کہ کرایہ دار دعویٰ کر رہا تھا کہ مکان میں برآمد ہونے والا خزانہ مالک مکان کا ہے۔ جبکہ مالک مکان کا موقف تھا کہ وہ گھر کرائے پر دے چکا ہے۔ لہذا خزانہ کرایہ دار کا حق ہے۔ دونوں کو ڈر تھا کہ اگر ناحق لیا تو قیامت والے دن پکڑ ہو گی۔
بازار میں ایک شخص گھوڑا خرید رہا تھا اور قیمت سن کر کہنے لگا کہ یہ قیمت تم نے کم بتائی۔ جبکہ اس گھوڑے کی قیمت اس سے زیادہ ہونی چاہئے اسکی قیمت بڑھاؤ۔ پھر خریدار اس گھوڑے کی قیمت بڑھاتے بڑھاتے ایک مناسب حد تک لے آیا اور گھوڑا خرید لیا۔ اسکو ڈر تھا کہ اگر اس گھوڑے کو بیچنے والے کی کسی مجبوری یا کم علمی کی بدولت کم قیمت پر لے لیا تو قیامت والے دن پکڑ ہو سکتی ہے۔
یہ صحابہ کرام کا دور تھا۔ تاریخ انسانی کا ایک سنہری دور۔ اس معاشرے کی خوبصورتی اور حسن کا اصل راز صحابہ کرام کے دلوں میں جگمگاتا ہوا ایمان تھا۔ انکی نمازیں ، جہاد ، اخلاق ، آپس کی محبت اور شفقت ، انصاف غرض وہ سب کچھ جس نے اس معاشرے کو ایک بے مثال معاشرہ بنایا تھا اسی ایمان کی بدولت تھا۔ اور یاد رکھیے۔ “ایمان نافذ نہیں کیا جا سکتا”۔
ایمان کی طاقت اور ہمارا حال
آج ہم احمقوں کی طرح اس سنہری دور کو آنکھوں میں سجائے طاقت حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور اسکے لیے ایک دوسرے کے حقوق مار رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کسی طرح ریاستی طاقت ہاتھ آ گئی تو ویسا ہی معاشرہ بزور طاقت دوبارہ بنایا جا سکتا ہے۔
پیارے بھائیوں اس بات کو خوب سمجھ لو کہ ریاستی طاقت اسلام کے کچھ احکام ہی نافذ کر سکتی ہے۔ ایمان نافذ نہیں کر سکتی۔ ایمان نافذ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ صرف لوگوں کے دلوں پر کوشش کرنے سے آسکتا ہے۔ وہ کوشش جس سے ہم جی چرا رہے ہیں۔ وہ کوشش جو حضور ﷺ اور صحابہ کرام ساری زندگی کرتے رہے۔ جب تک لوگوں کے دلوں میں ایمان نہیں جاگے گا کوئی اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں آسکے گا۔ چاہے جتنی طاقت استعمال کر لو۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور اس غفلت سے بیدا ہوں۔ ایمان کی طاقت ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ رب تعالیٰ ہمیں اسے پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ خدارا رب کی طرف لوٹو اور اپنی ذات میں تبدیلی سے ایک خوبصورت معاشرے کی بنیاد رکھو۔ جہاں ہم اور ہماری نسلیں ایمان کی حفاظت کے ساتھ پروان چڑھ سکیں۔