اسلامی تاریخ بہت پرانی اور طویل ہے۔ اگر ہم اسکو شروع سے لیں تو شاید بیان کرتے کرتے الفاظ ختم ہو جائیں اور لکھتے لکھتے ہم۔ اس بہت ہی لمبی اسلامی تاریخ کو ہم مختصر طور پر بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تا کہ جو لوگ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ اس سے کچھ حاصل کر سکیں۔
اللہ پاک نے زمین پر اپنی خلافت کے لیے اپنے دست قدرت سے سب پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا۔ پھر ان میں اپنی طرف سے ایک خاص روح ڈالی اور جنت میں رہائش عطا کی۔ یہاں ان کی زوجہ حضرت حوا رضي الله عنها کو بنایا، ایک عرصہ تک یہ دونوں جنت میں رہے۔ پھر ان کی تخلیق کے اصل مقصد کی تکمیل کے لیے درخت کا پھل کھانے کے بعد انہیں جنت سے زمین پر اتار دیا گیا۔
حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان بھی تھے اور زمین پر پہلے نبی بھی۔ اللہ پاک نے انہیں اولاد کی نعمت سے نوازا جس سے رفتہ رفتہ انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور لوگ مختلف قوموں، قبیلوں میں تقسیم ہو کر زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہوتے چلے گئے۔
انسان، گناہ اور گمراہی
آسمانی صحیفوں، قرآنی تعلیمات اور جدید ترین تحقیق کے مطابق ابتدا میں انسان توحید اور مذہب کے ماننے والے ہی تھے، وہ اللہ پاک کی وحدانیت پر ایمان رکھتے اور صرف اسی کے عبادت گزار تھے جبکہ کفر و شرک بعد کی پیداوار ہیں۔ انسان کی زمین پر آمد کے بعد گزرتے وقت کے ساتھ ابلیس کی کوششیں رنگ لانا شروع ہوئیں اور لوگ اس کے بہکاووں اور وسوسوں کا شکار ہو کر گناہ اور گمراہی میں مبتلا ہو گئے۔ یہاں تک کہ خالق حقیقی، معبودِ برحق کی بندگی چھوڑ دی اور اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے بتوں کو خدا کا شریک اور اپنا معبود ٹھہرا لیا۔
کفر و شرک، گمراہی اور بد عملی کے اُس ماحول میں لوگوں کو اللہ پاک کی وحدانیت پر ایمان لانے، شرک سے روکنے، ایمان لانے پر جنت کی بشارت دینے اور کفر و انکار پر عذاب کی وعید سنانے کے لیے اللہ پاک نے اپنے مقرب بندوں کو نبوت و رسالت کا منصب عطا فرما کر ان کے پاس بھیجا۔
ان میں سب سے پہلے کفار کی طرف حضرت نوح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا گیا۔ انہوں نے سینکڑوں سال تک بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ ہدایت پر لانے کی کوشش کی لیکن گنے چنے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی صراط مستقیم پر چلنے کے لیے تیار نہ ہوا۔ آخر کار جب ان لوگوں کے ایمان لانے کی امیدیں ختم ہو گئیں تو حضرت نوح علیہ السلام نے ان کے خلاف دعا کی اور ایک بہت بڑے طوفان کے ذریعے روئے زمین کے تمام کفار ہلاک کر دیئے گئے۔ جبکہ حضرت نوح علیہ السلام اور اہل ایمان کو رب کریم نے اس عذاب سے محفوظ رکھا۔
آدم ثانی
طوفان ختم ہونے کے بعد حضرت نوح علیہ السلام اہل ایمان کے ساتھ کشتی سے زمین پر اتر آئے اور ایک شہر آباد کیا، پھر آپ سے انسانوں کی نسل آگے چلی، اسی لئے آپ کو آدم ثانی (یعنی دوسرے آدم) کہا جاتا ہے۔ آپ کے وصال کے کچھ عرصہ بعد لوگ بت پرستی کے رستے پر چل پڑے اور ان کی اصلاح کے لئے اللہ پاک نے مختلف اوقات میں مختلف قوموں کی طرف پے در پے انبیاء و مرسلین علیهم السلام کو روشن نشانیوں اور معجزات کے ساتھ بھیجا۔ لوگوں کی ہدایت و نصیحت کے لیے ان پیغمبروں پر کئی صحیفے اور کتابیں نازل فرمائیں۔
ان سب کی دعوت اور تبلیغ و نصیحت کا ایک ہی محور تھا کہ اے لوگو! واحد اور حقیقی خدا پر ایمان لاؤ، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، اسی کے سامنے اپنی جبین نیاز جھکاؤ اور اسی کی بارگاہِ بے نیاز میں سجدہ ریز ہو، اس کے بھیجے ہوئے نبیوں اور رسولوں عليهم السلام پر ایمان لاؤ، ان کی اطاعت و فرمانبرداری پر کمربستہ ہو جاؤ، گناہ و نافرمانی، سرکشی اور ہٹ دھرمی سے بچو اور لوگوں کے حقوق ادا کرو۔
یہ نصیحتیں قبول کرنے کی بجائے عموماً قوم کے سرکردہ افراد نے ان رسولوں کا مذاق اڑایا، ان پر پھبتیاں کسیں، طعن و تشنیع کے نشتر چلائے، انہیں اپنے جیسا بشر قرار دے کر اطاعت سے منہ موڑا، غریب لوگوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے انہیں ایمان لانے سے روکا بلکہ بہت سے نبیوں کو شہید کر دیا اور ان اقوام کی بے باکی کا یہ عالم تھا کہ عذاب الہٰی کی وعیدیں سن کر ڈرنے کی بجائے الٹا نزول عذاب کا مطالبہ کر دیتے اور آخر کار ان کی سرکشی اپنے انجام کو پہنچی اور بہت سی اقوام مختلف عذابوں سے ہلاک کر دی گئیں۔
عظیم ترین ہستیاں
اسلامی تاریخ کے اس سفر میں نبوت و ہدایت کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور آخر کر ہمارے پیارے آقا ﷺ پر آ کر نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ اس دوران بہت سے نبی و رسول تشریف لائے۔ اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہی کی شریعت قیامت تک چلے گی۔ یہ سفر اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے اور ہم قیامت کے بہت قریب ہیں۔ اپنی آنکھوں سے غفلت کا پردہ ہٹا کر اس بارے میں ضرور سوچیں۔ اپنے اندر تبدیلی لائیں۔ قرآن پاک اور انبیاء علیھم السلام کی سیرتوں کا مطالعہ کریں۔
یہ کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں۔ جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی، حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ ان کی ربانی سیرتوں، راہِ خدا میں کاوشوں اور خدائی پیغام پہنچانے میں اٹھائی گئی مشقتوں میں تمام انسانیت کے لئے عظمت، شوکت، کردار، ہمت، حوصلے اور استقامت کا عظیم درس موجود ہے۔ ان کی سیرت کا مطالعہ آنکھوں کو روشنی، روح کو قوت، دلوں کو ہمت، عقل کو نور ، سوچ کو وسعت، کردار کو حسن، زندگی کو معنویت، بندوں کو نیاز اور قوموں کو عروج بخشتا ہے۔