اللہ پر بھروسہ

ایک عورت کا اللہ پر بھروسہ(حکایت)

ایک زاہد شخص کا بیان ہے کہ میں حج کرنے کے لئے اپنے گھر سے روانہ ہوا۔ تو میں نے راستہ میں ایک عورت دیکھی جو بغیر زادے راہ اور سواری کے پیدل اللہ پر بھروسہ کرے کے چلتی جارہی تھی ۔ اور ذکر الٰہی میں مصروف تھی۔

اللہ پر بھروسہ

میں نے اس کے قریب ہو کر کہا: اے اللہ کی بندی کہاں جانے کا ارادہ ہے؟۔ وہ بولی :اللہ کے گھر خانہ کعبہ میں، میں نےکہا: تمہارے پاس سفر کا سامان اور سواری نہیں دکھ رہی ۔ وہ بولی: اگر تم میں سے کوئی شخص دعوت پکائے اور لوگوں کو بلائے۔

کیا اس کے مہمانون کے لئے یہ بات اچھی ہو گئی کہ وہ اپنا کھانا ساتھ لائیں۔ میں نے کہا : نہیں، پھر اس عورت نے کہا: اللہ پاک کی ضیافت اس سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ پھر وہ ہمارے ساتھ آئی اور پتھریلی زمین پر اتری اور کہتی تھی: میرے رب کا گھر کہاں ہے؟ اس سے کہا گیا کہ ابھی تھوڑی دیر بعد تو اسے دیکھ لے گی۔

جب وہ مسجد حرام داخل ہوئی تو اس سے کہا گیا کہ یہی تیرے رب تعالیٰ کا گھر ہے۔ اس نے اپنا سر کعبہ کی چوکھٹ پر رکھا اور بار بار یہ کہتی تھی : یہ میرے رب کا گھر ہے۔ حتی کہ اس کی آواز بیٹھ گئی۔ جب ہم نے اس کی طرف دیکھا تو وہ فوت ہو چکی تھی۔

5/5 - (2 votes)
بیوی کا اثر

بیوی کا اثر کہاں تک جاتا ہے؟

اللہ پر توکل

ایک بچی اور آسمانی دسترخوان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

شب معراج کی فضیلت اور نوافل

معجزات سیرت انبیاء علیہم السلام کا بہت ہی نمایاں اور روشن باب ہیں۔ ان کی حقانیت سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قانون الٰہی ہے اس نے جب بھی انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاء علیہم...

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)