اللہ تعالیٰ پر ہمارا ایمان

اللہ تعالیٰ پر ہمارا ایمان

مسلمان ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مانے اورحضرت محمدﷺ کی نبوت و رِسالت کومانے۔ اللہ ایک ہے۔ اس کی خدائی میں، اس کےکاموں میں، اس کے اَحکام میں اور اس کے اَسماء میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ وہ وَاجِب الوجود ہے جس کا معنی یہ ہے کہ اس کا وجود ضروری ہے اورعدم محال ہے۔ اسکی ذات ہمیشہ سے ہے اور وہ ہمیشہ رہے گا۔ صرف اللہ ہی غیر محدود تعریفوں اور عبادت کا حق دار ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے بلکہ ہر شے اس کی محتاج ہے۔

کیا اللہ تعالیٰ کی ذات کاعقل سےاحاطہ کیا جا سکتا ہے؟

اس کی ذات کاعقل کے ذریعے سے احاطہ نہیں کیاجا سکتا۔ وہ ہمارے خیال اورسمجھ سے وراء ہے۔ عقل، دانائی اورحکمت ان ذرائع سے اس کی عظیم ذات کو جاننا ممکن نہیں ہے۔ وہ خَیالات سے وراء ہے، وہ کسی حد میں محدود نہیں ہے۔ کسی چیز کو تصور میں تب ہی لایا جا سکتا ہے جب اس کی کوئی طے شدہ شکل وصورت ہو اور اللہ تعالیٰ شکل و صورت سے پاک ہے۔ لامحدود ہے اور ہر پابندی سے آزاد ہے۔ لہٰذا عقل میں اس کی کوئی بھی شکل و صورت بٹھانا ممکن نہیں ہے۔ البتہ اس کی مخلوق پرغور اور تدبّرکرنے سے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی دی ہوئی نعمت عقل کو استعمال کرنے سے اللہ پاک کے وجود کی معرِفت ممکن ہے۔

اس ذات پرہمارا کیا ایمان ہونا چاہیئے؟

وہ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا اور نہ ہی اس کی کوئی بیوی ہے۔ جو یہ مانے یا کہے کہ وہ کسی کا باپ ہے یا بیٹا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارِج ہے۔ وہ سارے کمالات کا جامِع ہے، ہر ناپاکی، عیب، ظُلم، بد اخلاقی اور بے حیائی کے کاموں سے پاک ہے۔ کسی نَقص، کوتاہی یا کمزوری کا اس کی ذات میں پایا جانا بالکل ناممکن ہے۔

جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، بدتمیزی، وَحشت، جَہالت، بے رحمی اور اس جیسی دیگر مذموم چیزیں اللہ پاک کے لیے ممکن نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ وقت، جگہ اور سَمت کی حدود سے، شکل وصورت اور ہر وہ چیز جو مخلوق سے مشابہت رکھتی ہے اس سے پاک ہے۔

کیا اس کودنیا میں دیکھا جا سکتا ہے؟

اللہ پاک کودنیا میں دیکھنا یہ ہمارے آقا حضرت محمدﷺ کے ساتھ خاص ہے۔(1)۔ حضورﷺ نے معراج کی رات اللہ پاک کا جاگتے ہوئے سر کی آنکھوں سے دیدار کیا۔(2)۔ باقی انبیاء علیھِم السلام نےمراقبہ یا خواب کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا۔(3)

روایت ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نےخواب میں سو100 سے زیادہ مرتبہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا۔(4)۔ اس سےمعلوم ہوا کہ انبیاء علَیھِم السلام کے علاوہ بعض اولیاء اللہ کو بھی خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیدارہوتا ہے۔ وہ مَالِک اَلمُلک یعنی سب سے بڑا بادشاہ ہے۔ وہ جو چاہے جب چاہے جیسے چاہے اپنی مرضی سےکرتا ہے۔ کسی کا اس پرقبضہ یاتسلّط نہیں ہے اور کوئی اس کے ارادہ سے اُسے پھیرنہیں سکتا۔

اللہ تعالیٰ کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند وہ سارے جہانوں کو ہمیشہ دیکھتا ہے۔ وہ نہ کبھی تھکتا ہے اور نہ اداس ہوتا ہے. اس کے سوا کوئی بھی اس کائنات کی حفاظت کرنے والا نہیں، وہ سب سے زیادہ برداشت کرنے والا، خیال رکھنےوالا، اور ماں باپ سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے. اس کی رحمت ٹوٹے ہوئے دلوں کاچین ہے، ساری شانیں اورعظمتیں صرف اسی کے لیے ہیں۔ (5)۔

5/5 - (3 votes)

حوالہ جات

حوالہ جات
1بہارشریعت حصہ1 ،  1/20
2بہارشریعت حصہ1، 1/68
3بہارشریعت حصہ1، 1/21
4 منح الروض الازھر، ص 124 و بہارشریعت حصہ1، 1/21
5 بہارشریعت حصہ1، 1/22 ماخوذاً
ایمان کی تعریف

ایمان کی تعریف اور ایسے کام جن پر کفر کا حکم ہے..!

نجاست

نَجاستِ غَلیظہ

One thought on “اللہ تعالیٰ پر ہمارا ایمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

شب معراج کی فضیلت اور نوافل

معجزات سیرت انبیاء علیہم السلام کا بہت ہی نمایاں اور روشن باب ہیں۔ ان کی حقانیت سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قانون الٰہی ہے اس نے جب بھی انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاء علیہم...

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)

پتے کی بات

”تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے فقیہ ہونے کیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرناہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کے لئے اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے۔“ (طبرانی اوسط، رقم 8698)

”علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“
(طبرانی اوسط، رقم 3960)