یقینا ایک مسلمان کیلئے ہر ہر معاملے میں نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ ایک بہترین نمونہ ہے۔ جسے بھر پور انداز میں اپناتے ہوئے ہر مسلمان دنیا و آخرت کی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔ لہذا آج ہم اپنے پیارے پیارے نبی ﷺ کی سیرت میں سے آپ کے اخلاق کریمانہ کے بارے میں جانیں گے۔ اخلاق مصطفیٰ ﷺ بہت عظیم ہیں۔
اللّہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو۔ (1)
نبی کریم ﷺ کے بے مثال فضل و احسان اور خُلق عظیم سے ہر خاص و عام متاثر تھا۔ وہ اس لئے کہ آپ ﷺ تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے اور خلق عظیم کے باکمال منصب سے نوازے گئے ہیں۔ آپ ﷺ ہی کے در سے دکھ درد دینے والے مجرموں میں معافی کے پروانے تقسیم کئے جاتے اور ظلم و زیادتی کے بدلے میں دعائیں دی جاتی تھیں۔
قوم کے لئے دعائے ہدایت
غزوہ اُحد میں جب نبی کریم ﷺ کے مبارک دندان کو شہید اور چہرہ انور کو زخمی کر دیا گیا تو آپ ﷺ نے ان لوگوں کے لئے اس طرح دعا فرمائی :
یعنی اے اللہ میری قوم کو ہدایت عطا فرما کیونکہ یہ لوگ مجھے جانتے نہیں۔
حق کی راہ میں پتھر کھائے، خوں میں نہائے طائف میں دین کا کتنی محنت سے آپ نے کام کیا۔ جان کے دشمن خون کے پیاسوں کو بھی شہر مکہ میں عام معافی آپ ﷺ نے عطا کی، کتنا بڑا احسان کیا۔
اخلاق مصطفیٰ کی جھلکیاں
نبی کریم ﷺ ہر وقت اپنی زبان کی حفاظت فرماتے اور صرف کام ہی کی بات کرتے۔ آنے والوں کو محبت دیتے۔ ایسی کوئی بات یا کام نہ کرتے جس سے نفرت پیدا ہو۔ قوم کے معزز فرد کا لحاظ فرماتے اور اس کو قوم کا سردار مقرر فرما دیتے۔ لوگوں کو اللہ پاک کے خوف کی تلقین فرماتے۔
صحابہ کرام عليهم الرضوان کی خبر گیری فرماتے۔ لوگوں کو اچھی باتوں کی اچھائی بیان کرتے اور بُری چیز کو بُرا بتاتے اور اُس پر عمل سے روکتے۔ ہر معاملے میں اعتدال (یعنی میانہ روی ) سے کام لیتے۔ لوگوں کی اصلاح سے کبھی بھی غفلت نہ فرماتے۔ آپ ﷺ اُٹھتے بیٹھتے یعنی ہر وقت ذکر اللہ کرتے رہتے۔
جب کہیں تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ مل جاتی وہیں بیٹھ جاتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔
اپنے پاس بیٹھنے والے کے حقوق کا لحاظ رکھتے۔ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہنے والے ہر فرد کو یہی محسوس ہوتا کہ نبی کریم ﷺ مجھے سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔
انداز گفتگو
خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر گفتگو کرنے والے کے ساتھ اُس وقت تک تشریف فرما رہتے جب تک وہ خود نہ چلا جائے۔ جب کسی سے مصافحہ فرماتے (یعنی ہاتھ ملاتے) تو اپنا ہاتھ کھینچنے میں پہل نہ فرماتے۔ سائل (2) کو عطا فرماتے آپ ﷺ کی سخاوت و خوش خلقی ہر ایک کیلئے عام تھی۔ آپ ﷺ کی مجلس علم ، بردباری، حیا اور صبر کی مجلس تھی۔ آپ ﷺ کی مجلس میں شوروغل ہوتا نہ کسی کی تذلیل (یعنی بے عزتی) ہوتی۔
نبی کریم ﷺ کے اخلاق حسنه کے عظیم مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود بھی اللہ کی بارگاہ میں اچھے اخلاق کی دعا مانگا کرتے تھے۔ جس میں یقیناً ہم غلاموں کے لئے یہ تعلیم ہے کہ ہم بھی اچھے اخلاق اختیار کریں اور اللہ پاک سے دعا بھی مانگا کریں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک اخلاق مصطفیٰ ﷺ کے طفیل ہمیں بھی اچھے اخلاق سے آراستہ فرمائے۔ آمین ثم آمین